روزمرہ استعمال کی گھریلو مصنوعات میں پائے جانے والے زہریلے کیمیکلز رحمِ مادر (بچہ دانی) میں ”یوٹرین فبروئڈز“ نامی رسولیوں کا سبب بن سکتے ہیں، جو خواتین میں سب سے زیادہ عام ٹیومر ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ صنعت کار، متعدد صنعتی اور گھریلو مصنوعات میں ماحولیاتی فتھیلیٹس کا استعمال کرتے ہیں، یہ فتھیلیٹس طبی سامان اور خوراک میں بھی پائے گئے ہیں۔
محققیقین کہتے ہیں کہ فتھیلیٹس کو زہریلا سمجھا جاتا ہے۔
امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی فینبرگ اسکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے متعلقہ مصنف سیرڈر بلون نے بتایا، ”یہ زہریلا کیمیل کھانے کی پیکیجنگ، بالوں، میک اپ کی مصنوعات اور پلاسٹک کے برتنوں سمیت کئی چیزوں میں پایا جاتا ہے اور اس کے استعمال پر پابندی بھی نہیں ہے۔“
بلون کہتے ہیں کہ، ”یہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتا، بلکہ انسانی بافتوں کو بھی خاص نقصان پہنچا سکتے ہیں۔“
فبرائڈز پٹھوں کے ٹیومر ہیں جو رحمِ مادر کی دیوار میں بڑھتے ہیں۔ یہ عموماً کینسر نہیں ہوتے ہیں جبکہ تمام خواتین میں اس کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔
بلون نے مزید کہا کہ تمام خواتین میں سے 80 فیصد میں ان کی زندگی کے دوران فبرائڈ ٹیومر پیدا ہونے کلا خطرہ ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک چوتھائی خواتین میں بہت زیادہ اور بے قابو یوٹیرن بلیڈنگ، خون کی کمی، اسقاط حمل، بانجھ پن اور پیٹ کے بڑے ٹیومر کی علامات بن جاتی ہیں، جن کے لیے تکنیکی طور پر مشکل سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔
پی این اے ایس کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں پتا چلا ہے کہ جن خواتین میں بعض فتھیلیٹس جیسے DEHP اور اس کے میٹابولائٹس کی زیادہ نمائش ہوتی ہے ان میں علامتی فبرائڈ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
DEHP کو ایک پلاسٹسائزر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مصنوعات کی پائیداری کو بڑھایا جا سکے جیسے کہ شاور کے پردے، کار کی افولسٹری، لنچ باکس، جوتے وغیرہ۔
سابقہ وبائی امراض کے مطالعے نے مستقل طور پر phthalate کی نمائش اور uterine fibroid کی نشوونما کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ DEHP کی نمائش ایک ہارمونل راستے کو ایکٹیو کر سکتی ہے جو ہمارے جینیاتی مواد، ڈی این اے کو جوڑنے والے ایک ماحولیاتی رسیپٹر (AHR) کو ایکٹیو کرتا ہے اور فبرائڈ ٹیومر کی بڑھتی ہوئی نشوونما کا سبب بنتا ہے۔
بلون کہتے ہیں، ”دلچسپ بات یہ ہے کہ، AHR کو 90 کی دہائی کے اوائل میں ڈائی آکسین کے رسیپٹر کے طور پر کلون کیا گیا تھا، جو کہ ایجنٹ اورنج میں کلیدی زہر ہے۔“
”ویتنام کی جنگ کے دوران ایجنٹ اورنج کا استعمال بے نقاب آبادی میں نمایاں تولیدی گڑبڑ کا باعث بنا، ڈائی آکسین اور اے ایچ آر کو اس کے لیے ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔“