پاکستان میں ڈاکٹر بننے کی خواہش میڈیکل طلباء کی اعصابی تباہی کا باعث تو بن ہی رہی تھی، لیکن اب یہ جانیں بھی لینے لگی ہے۔
رواں سال کا میڈیکل اور ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ جسے ایم ڈی کیٹ بھی کہا جاتا ہے ہے تضادات کا شکار ہوگیا اور اس کے باعث ایک طالبہ اپنی جان دینے مجبور ہوگئی ہیں۔
سدرہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے تھا اور اسے کسی بھی قیمت پر ڈاکٹر بننے کا جنون تھا۔
تاہم، ایم ڈی کیٹ میں ناکامی سدرہ کی جان لے گئی۔ سدرہ نے مبینہ طور پر میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ میں نمبر کم آنے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی۔
بی بی سی کے مطابق، سدرہ نے گذشتہ اتوار کوئٹہ میں پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے منعقدہ ٹیسٹ میں حصہ لیا تھا، جس کے اگلے روز انہوں نے خودکشی کی۔
سدرہ کے والد امجد رحیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ”ہو سکتا ہے داخلہ ٹیسٹ میں نمبر کم آنے پر ان کی بیٹی مایوس ہوئی ہو، لیکن ہمارے گھر کے کسی فرد کی جانب سے اس پر کسی بھی قسم کا کوئی دباﺅ نہیں تھا۔“
لیکن سدرہ اکیلی نہیں جو ایم ڈی کیٹ کے باعث ہونے والے تناؤ کا شکار بنی ہو۔
سترہ سالہ علی (تبدیل شدہ نام) کے لیے اس سال کا ایم ڈی کیٹ ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب کو پورا کرنے کا ایک موقع تھا۔ یہ دراصل ان کے والدین کا خواب ہے لیکن انہوں نے اسے اپنا لیا ہے۔
اپنے اسکول اور کالج کے سالوں میں ایک غیر معمولی طالب علم رہ چکے علی نے میٹرک (دسویں جماعت) اور انٹر (گریڈ 12) دونوں میں 85 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔ لیکن نمونیا کی وجہ سے ان کی تیاریوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو انہیں اپنی پہلی کوشش میں ہی ایم ڈی کیٹ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
علی نے اگلا سال ضلع اوکاڑہ کے چھوٹے سے قصبے دیپالپور میں اپنے آبائی گھر میں گزارا۔
علی نے یہ بھی بتایا کہ دیپالپورہ پاکستان کا سب سے بڑا ذیلی ضلع ہے اور گوگل سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
اس دوران ان کا لاہور آنا جانا بھی لگا رہا، علی نے لاہور کے فارمین کرسچن کالج سے تعلیم حاصل کی اور ان کے بڑے بھی وہاں قانون کی ڈگری حاصل کر رہے تھے۔
لیکن ان کا ٹارگیٹ اب بھی 13 نومبر کا دن تھا، وہ تاریخ جب ایم ڈی کیٹ کا انعقاد کیا گیا۔
انہوں نے سیلاب کی وجہ سے داخلہ ٹیسٹ میں تاخیر کا خیرمقدم بھی کیا کیونکہ اس نے انہیں تیاری کے لیے مزید وقت دیا۔
انٹری ٹیسٹ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور انگلینڈ فائنل کے ساتھ ہی ہوا۔ کرکٹ کے مداح ہونے کے باوجود علی میچ کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے۔ وہ زیادہ کرکٹ نہیں کھیلتے کیونکہ ’جب آپ میڈیسن پڑھتے ہیں تو واقعی کرکٹ کھیلنے کا وقت نہیں ہوتا‘۔
پچھلی ناکامی کے بعد پورے ایک سال تک، ان کی توجہ کا مرکز داخلہ ٹیسٹ رہا۔
لیکن، ٹیسٹ میں چیزیں اس طرح نہیں ہوئیں جیسا انہیں امید تھی۔ وہ دوسرے سوال کا جواب نہیں جانتے تھے۔ ملٹیپل چوائس (متعدد انتخاب) کے باوجود انہیں درس جواب ڈھونڈنے میں ناکامی ہوئی۔
علی نے ٹیسٹ میں موجود جدوجہد کرتے دوسرے شرکاء کی طرح اندازے سے کچھ جوابات دینے کی کوشش کی۔
جب بھی انہیں لگتا کہ وہ درست سمت میں جا رہے ہیں ایک اور سوال ایسا سامنے آجاتا جو انہیں اپنی ذہانت پر سوالیہ نشان لگانے پر مجبور کردیتا۔
لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ وہ ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بارے میں انہیں کبھی پڑھایا ہی نہیں گیا۔
ساڑھے تین گھنٹے پر مشتمل یہ امتحان چاروں صوبوں میں موجود امیدواروں کیلئے اسلام آباد، کشمیر اور گلگت میں پاکستانی وقت کے مطابق صبح 11 بجے ایک ساتھ شروع ہوا۔ جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں موجود طلباء نے بھی حصہ لیا۔
ٹیسٹ گراؤنڈ کے باہر انہوں نے دوسرے طلباء کو بھی انہی خدشات کا اظہار کرتے سنا۔ شور بہت تھا، لیکن ایک بات پر سب متفق تھے کہ ”کچھ سوالات سلیبس سے باہر تھے“۔
زیادہ تر نے اتفاق کیا کہ کم از کم ایک درجن ایسے سوالات تھے جو آؤٹ آف سلیبس تھے۔ جبکہ دیگر کا کہنا تھا یہ تعداد دو گنا زیادہ تھی۔
یہ پہلا سال تھا جب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کی جگہ بننے والے پاکستان میڈیکل کمیشن نے انٹری ٹیسٹ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے حوالے کیا۔ اس سے پہلے ٹیسٹ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ذریعہ لئے جاتے تھے۔
رواں سال، دو لاکھ سے زائد طلباء نے ملک بھر میں قائم مراکز پر امتحان میں شرکت کی۔ ٹیسٹ پانچ یونیورسٹیوں کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے، ہر صوبے میں ایک۔ اسلام آباد کی یونیورسٹی نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی ٹیسٹ بنایا۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (UHS) لاہور کے زیر انتظام پنجاب میں لگ بھگ 83 ہزار طلباء نے ٹیسٹ دیا۔ خیبرپختونخوا میں 46 ہزار سے زائد افراد نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور کی طرف سے تیار کردہ ٹیسٹ دیا۔
سندھ میں، 43 ہزار 994 طلباء نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (DUHS) کے زیر انتظام ٹیسٹ دیا۔
دارالحکومت اسلام آباد میں، شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی (SZABMU) نے 17 ہزار 825 امیدواروں کا ٹیسٹ لیا۔
بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز (BUMHS) بلوچستان کی متعلقہ یونیورسٹی تھی، جس میں 9 ہزار 238 درخواست دہندگان تھے۔
آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) میں مزید 2 ہزار 718، گلگت میں 645، سعودی عرب میں 222، اور متحدہ عرب امارات میں 240 نے ٹیسٹ دیا۔
ہر یونیورسٹی انٹرمیڈیٹ یا FSc (سائنس کی فیکلٹی) کی سطح پر پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کی بنیاد پر اپنا ٹیسٹ بنانے کی ذمہ دار تھی۔ سوالات فزکس، بائیولوجی اور کیمسٹری سے تھے جن میں انگلش اور منطقی استدلال (لوجیکل ریزننگ) شامل تھے۔
طلباء کا کہنا ہے کہ 200 ملٹیپل چوائس (ایم سی کیوز) پر مشتمل ٹیسٹ میں کچھ سوالات اس نصاب کا حصہ نہیں تھے جو انہیں پڑھایا جاتا رہا تھا۔
کئی طلباء نے سوشل میڈیا پر MCQs کے حصوں کو شیئر کیا۔ جن میں سے دو کے نمونے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں:
پشاور ہائی کورٹ نے ایک طالب علم کی درخواست پر صوبے میں 13 نومبر کو ہونے والے ٹیسٹ کے نتائج کو اس وقت تک معطل کر دیا ہے جب تک کہ ”شفافیت اور مقابلے“ کے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔
سندھ اور بلوچستان کے طلباء نے اپنی شکایت کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔
ایک اور طالب علم نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ”زیادہ تر سوالات فیڈرل بورڈ کی نصابی کتابوں سے ہیں۔“
اس دن رات 9 بجے، علی سمیت دیگر امتحان دینے والوں کو ایک اور جھٹکا لگا۔
کچھ جوابات جن کے بارے میں انہوں نے سوچا تھا کہ صحیح ہیں، غلط نکلے۔ اب ان کے پاس پاسنگ مارکس بھی بمشکل تھے۔ اس چیز نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آیا وہ میڈیکل اسکول کی سختیوں کے لیے تیار بھی ہیں؟
جلد ہی، دوسرے طلباء نے اپلوڈ کی گئی جوابی کلید (Answer Key) کے بارے میں سولات اٹھانے شروع دئیے، علی نے بھی یہی کہا اور وہی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا،
”آپٹیکل مارک ریڈر کلید کی بنیاد پر ہمارے جوابات کا جائزہ لے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ان درست جوابات کے لیے کوئی نمبر نہیں ملے گا۔“
گواہیوں کی بوچھاڑ اور میمز کا سیلاب متعلقہ ہیش ٹیگز کی صورت اختیار کرگیا جو پاکستانی ٹوئٹر پر دیکھتے ہی دیکھتے ٹرینڈ بن گئے۔
سوشل میڈیا پر ہنگامہ آرائی، طلباء اور ان کے والدین کی تنقید اور متضاد رپورٹنگ کے باوجود یونیورسٹیوں اور کونسل کی جانب سے رد عمل خوش آئند ہے۔
پی ایم سی کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کی تیاری اور نتائج کا اندازہ لگانا یونیورسٹی کی ذمہ داری تھی جس نے اس مخصوص صوبے یا علاقے میں ٹیسٹ کا انعقاد کیا۔
پی ایم سی کی جانب سے ابتدائی طور پر جاری نوٹیفکیشن میں میں کہا گیا تھا کہ اگر امتحان میں تضادات پائے گئے تو طلباء کو ’گریس مارکس‘ سے نوازا جائے گا۔ لیکن یہ نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لے لیا گیا اور اختیار پوری طرح سے یونیورسٹیوں کو دے دیا گیا۔
پی ایم سی نے دو لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ دینے والے امیدواروں سے 6 ہزار روپے رجسٹریشن فیس وصول کی ہے۔ اس کا مطلب ہے 1.2 بلین روپے کی آمدنی۔ اس میں سے یونیورسٹیوں کو ٹیسٹ بنانے، کرانے اور نتائج کو جمع کرنے کے لیے ایک رقم ادا کی جائے گی۔
پی ایم سی کے رکن اور اس کے سندھ کوآرڈینیٹر جواد امین خان کا کہنا ہے کہ کنٹریکٹ یافتہ یونیورسٹیاں اپنے متعلقہ ٹیسٹوں میں سوالات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ ”ایک بار جب وہ ہمیں تضادات کے بارے میں بتائیں گے، تب ہم فیصلہ کریں گے۔“
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا طلباء کو ان سوالات کے لیے کوئی نمبر دیا جائے گا جو ٹیسٹ میں نہیں ہونا چاہیے تھے؟
تو ان کا کہنا تھا کہ ”طلبہ کو کمپنسیٹری نمبرز دئیے جائیں گےنہ کہ گریس مارکس، اگر کوئی سوال نصاب سے باہر پایا جاتا ہے تو ایسے ہر سوال کے لیے امیدوار کے ٹوتؒ نمبروں میںں ایک نمبر کا اضافہ کیا جائے گا۔“
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا یہ ایک اضافی نمبر ان تمام طلباء کو دیا جائے گا جنہوں نے اس یونیورسٹی کے ذریعہ تیار کردہ ٹیسٹ دیا تھا یا صرف ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے غلط جواب دیا تھا۔
ایم ڈی کیٹ کا نتیجہ اصل میں 19 نومبر کو جاری کیا جانا تھا لیکن جواد امین نے کہا کہ اس میں چند دن کی تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی سب سے بڑی تشویش ’طلباء کا مستقبل‘ ہے۔
ایک طالب علم نے سوال اٹھایا کہ جوابی پرچہ بھرنے کے لیے لیڈ پنسل کیوں استعمال کی گئی؟ سائل کو خدشہ تھا کہ جوابی پرچوں میں چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے۔
جواد امین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایسا آپٹیکل مارک ریڈر کی وجہ سے کیا گیا تھا جسے جوابی پرچوں کی جانچ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ معیاری جانچ کی صنعت میں ایک مشق ہے۔ اس کا مطلب غلط جوابات کو مٹانا بھی آسان ہے۔
انہوں نے ٹیسٹ کے نتائج میں شفافیت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب طلباء کو ان کی جوابی شیٹس کی کاربن کاپیاں فراہم کی گئیں۔ ”وہ اپنے جوابات کو اپ لوڈ کردہ کلید سے ملا سکتے ہیں۔ کسی بھی تضاد کی صورت میں، وہ آسانی سے نتیجہ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔“
تاہم، زیر بحث یونیورسٹیاں نے زیادہ غیر سنجیدہ رویہ اپنایا۔
ایک طالب علم نے UHS لاہور کو بھیجی گئی اپنی ای میل شیئر کی اور کہا کہ کوئی جواب نہیں ملا۔
دوسرے صوبوں کے طلباء نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے اور یونیورسٹیوں کو ایم سی کیوز، جوابی کلید میں غلطیوں، اور ہزاروں مستقبل کے ڈاکٹروں اور دندان سازوں کے مستقبل کے بارے میں بے حسی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اسلام آباد کے SZABMU کو چھوڑ کر کسی بھی یونیورسٹی نے غلطی اور نگرانی کا اعتراف نہیں کیا۔
’غلط جوابی کلید‘ کے مطابق اور نصاب سے باہر سوالات سمیت علی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ٹیسٹ پاس کرنے کیلئے درکار سے زیادہ نمبر ہیں۔ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے 55 فیصد فیصد اور ڈینٹل کالج کی درخواست کے لیے 45 فیصد نمبرز درکار ہوتے ہیں۔
تاہم، وہ مطلوبہ نمبر حاصل کرنے کے قریب بھی نہیں ہیں جس سے انہیں پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالج میں میرٹ پر جگہ مل سکے، جس کا خرچہ سالانہ پانچ سے ساڑے سات لاکھ روپے کے درمیان ہوتا ہے۔ جبکہ سیلف فنانسنگ پر یہ فیس تقریباً دوگنی ہو جاتی ہے۔
ایک سرکاری یونیورسٹی میں، میڈیکل اسکول کے پانچ سالوں میں تعلیم کی کل لاگت 3.5 ملین سے 8 ملین روپے کے درمیان کہیں بھی ہو سکتی ہے۔
زیادہ تر نجی میڈیکل کالجوں میں، پانچ سالہ ٹیوشن فیس 7.5 ملین روپے سے زیادہ ہے، کراچی کی باوقار آغا خان یونیورسٹی صرف ٹیوشن فیس کی مد میں 1.25 ملین روپے کے قریب ہے۔
یہ یونیورسٹی اپنے طلباء سے یونیورسٹی فیس کے طور پر سالانہ مزید 1.3 ملین روپے وصول کرتی ہے۔
یہ علی اور ان کے خاندان کے معمولی ذریعہ معاش کے لیے چیزوں کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ ان کے والد کے پاس زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا اور کچھ بچت ہے۔ لیکن ان کا بھائی لاہور میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور پھر ایک چھوٹا بھائی جس نے ابھی دسویں جماعت کی تعلیم حاصل کی ہے۔
ایم ڈی کیٹ کے ساتھ گڑبڑ نے علی کو اس بارے میں غیر یقینی بنا دیا ہے کہ معاملات کہاں اختتام پذیر ہوں گے، لیکن وہ اپنے اس بارے میں محتاط طور پر پر امید ہیں۔
علی کہتے ہیں، “اگر میرا کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ نہیں بھی ہوا تو بھی میں میڈیسن پڑھوں گا اور ڈاکٹر بنوں گا۔ استطاعت کسی نہ کسی طریقے سے خود ہی اپنا راستہ بنا لے گی۔ “