کراچی کے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) نے 20 اکتوبر کو اخبارات میں وہاں کے رہائشیوں کے لیے ایک پبلک نوٹس جاری کیا کہ کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے سیکشن 66 کے مطابق سال 2022-23 کے لیے جائیدادوں کے لیے ایک نئی اسیسمنٹ لسٹ (تخمینہ فہرست) تجویز کی گئی ہے۔
سی بی سی چاہتا ہے کہ کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے سیکشن 67 اور 72 کے تحت جائیداد پر عائد ٹیکس کے نظام پر نظرِ ثانی کی جائے۔
تاہم، سی بی سی کے پرانے رہائشیوں نے اس ”نظرِ ثانی“ کو اپنی جائیداد پر ادا کیے گئے سالانہ ٹیکس میں 300 فیصد اضافے کے طور پر دیکھا۔
سی بی سی کے اس ”ٹیکس“ کو ”اینوئل رینٹل ویلیو“ (اے آر وی) کہا جاتا ہے۔
سی بی سی ریونیو برانچ کے ایک افسر نے آج نیوز کو کنٹونمنٹ پراپرٹیز کی قیمت کا اندازہ لگانے کے مجوزہ طریقے کے ڈھانچے کے بارے میں بتایا۔
سالانہ رینٹل ویلیو کا حساب زمین کی قیمت اور تعمیراتی لاگت کو شامل کرکے کیا جاتا ہے۔ زمین کی قیمت کا حساب فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے 73 ہزار 125 روپے فی مربع گز کے ریٹ سے لگایا جاتا ہے۔
اس طرح ہزار مربع گز کے پلاٹ کی قیمت 73,125,000 روپے بنتی ہے، کس طرح؟
73125x1000=17325000
اس کے بعد آپ اس میں تعمیری لاگت شامل کرتے ہیں جو آپ کے گھر کے کُل رقبہ پر 2500 روپے فی مربع فٹ کے حساب سے لگایا جاتا ہے۔
اس ٹوٹل کو پھر 20 سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس طرح اینوئل رینٹل ویلیو کا فامولہ بنتا ہے:
زمین یا آپ کے پلاٹ کی قیمت + تعمیر کی قیمت / 20 = اینوئل رینٹل ویلیو
حالانکہ سی بی سی افسر یہ وضاحت نہیں کر سکے کہ 20 سے کیوں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اب آپ اس اے آر وی پر گھر کے تعمیری عرصے کی بنیاد پر چھوٹ کی شرح لاگو کرسکتے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈز نے چھوٹ کے پانچ اے آر وی سلیب متعارف کرائے ہیں:
یہ سلیب حتمی نہیں ہیں، اس حوالے سے رہائشی 19 نومبر تک اپنے تحفظات جمع کرا سکتے ہیں۔
مصیبت یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ یہ نیا فارمولا کیسے کام کر رہا ہے۔
درحقیقت، سی بی سی کے دفتر میں بہت سے کنفیوزڈ لوگ آئے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے تحفظات سی بی سی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سلیم حسن وٹو کو پیش کیے۔
سی بی سی افسر نے کہا، ”ہمیں 19 نومبر تک مجوزہ جائیداد کے تخمینے کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے،“ اس کے بعد کنٹونمنٹ رہائشیوں کو ترمیم شدہ بل بھیجیں گی۔
افسر نے وضاحت کی کہ سی بی سی کے پاس ایک کمیٹی ہے جسے کسی بھی رہائشی کو 10 فیصد چھوٹ فراہم کرنے کا حق ہے، اس کیلئے آپ کو مجوزہ اے آر وی تخمینے پر تحریری درخواست دینا ہوگی۔ کنٹونمنٹ کے نائب صدر کمیٹی میں شامل ہیں۔ ”نئے سلیب پراپرٹیز پر فرق کو ختم کرنے اور یکساں ٹیکس طے کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے تھے۔“
انہوں نے کہا کہ “ہم نے ایف بی آر کا بیس ریٹ (مقررہ شرح) یعنی 73,125 روپے فی مربع گز لیا ہے جو حساب کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن فارمولے میں ایک چھوٹ بھی شامل کی گئی ہے جس کے مطابق،
اس کے نتیجے میں پرانے رہائشیوں کو پہلے سے زیادہ ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے۔ اگر وہ اپنے گھر اس وقت بناتے جب سیمنٹ اور گرڈر سستے تھے تو ان کی تعمیری لاگت کم ہوتی۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے مطابق مشرف دور سے پہلے تقریباً 23 ہزار مکانات تھے، زیادہ تر فیز 1، 2، 4، 5 میں۔ اس کے بعد سے یہ بڑھ کر 44 ہزار نئے یونٹس قائم ہو چکے ہیں کیونکہ نئے فیز میں لوگ مزید تعمیرات کر رہے ہیں۔
مجوزہ تبدیلی سے ناراض ڈی ایچ اے فیز ٹو کے رہائشیوں میں سے ایک کہتے ہیں کہ ”کسی نے پنڈی میں بیٹھ کر ان کو پٹی پڑھا دی ، اور انہوں نے ٹیکس بڑھا دیا“۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس شخص نے کہا کہ سی بی سی کا سال بھر کا ریونیو کلیکشن پہلے ہی دو سالوں میں 2 ارب روپے سے بڑھ کر 6 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، لیکن وہ اب بھی پراپرٹی ٹیکس سے مزید اضافہ چاہتے ہیں۔
ایک اور رہائشی کہتے ہیں کہ (اس حوالے سے) لوگوں میں سے کسی سے بھی مشورہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”قانونی طور پر وہ ایسا کر سکتے ہیں، کیونکہ قانون انہیں ٹیکس بڑھانے یا کم کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہ ایک غیر منصفانہ عمل ہے کیونکہ وہ حالیہ قیمتوں کے ڈھانچے کی وضاحت نہیں کرتے۔“
ایف پی سی سی آئی رئیل اسٹیٹ کمیٹی کے کنوینر جوہر اقبال نے بھی محسوس کیا کہ جو تجویز کیا جا رہا تھا وہ بلاجواز تھا۔
جوہر اقبال نے دلیل دی کہ کنٹونمنٹ بورڈز پہلے ہی شہر کے باقی علاقوں کے مقابلے میں پراپرٹی ٹیکس کی 100 فیصد وصولی حاصل کرتے ہیں، جنہیں ان کی سالانہ جائیداد کا حصہ بمشکل 20 فیصد ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرانے رہائشی وہ لوگ ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہیں اور ایف بی آر کی مقررہ شرح پر پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
جوہر اقبال ڈیفنس کلفٹن رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے میں پرانے تعمیر شدہ رہائشی یونٹس پر پراپرٹی ٹیکس کی قیمت میں تقریباً 300 سے 400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ کنٹونمنٹ بورڈز کو بتدریج ایف بی آر بیس ریٹ کو اے آر وی ٹیکس میں لاگو کرنا چاہیے، لیکن انہوں نے پورے ڈی ایچ اے کو ایف بی آر A+ کیٹیگری میں رکھا ہے۔
ہم نے وکیل عبدالمعیز جعفری سے نئے مجوزہ چارجز کے بارے میں بات کی جو DHA اور CBC کراچی کے رہائشیوں پر عائد کئے جارہے ہیں۔ درحقیقت ملک بھر میں کنٹونمنٹس اپنے پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ کر رہی ہیں۔
تاہم، جعفری کا استدلال ہے کہ اگر ہم ڈی ایچ اے کے اپنے قانون، کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے مطابق دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب غیر قانونی ہے۔
کنٹونمنٹ کوئی مستقل بستی نہیں ہے۔ یہ وہاں قائم کیا جاتا ہے جہاں فوجی مقاصد کے لیے زمین کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو۔ یہ عارضی طور پر فوج اور فوج سے متعلقہ زمین کے استعمال کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کی کلاسیں ہوتی ہیں، اس کا انحصار کام کی حساسیت اور افسران کے گریڈز پر ہوتا ہے۔
یعنی جب تک آپ کو اس زمین کی ضرورت ہے، آپ اسے وفاقی حکومت سے لے سکتے ہیں اور جب آپ کو اس زمین کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو آپ اسے وفاقی حکومت کو واپس کر دیتے ہیں۔
جس طرح وفاقی حکومت چھاؤنی کے قیام کا اعلان کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے، اسی طرح وہ کنٹونمنٹ کو ختم کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر سکتی ہے جو زمین کو عام زمین قرار دیتا ہے اور صوبائی حکومت کو یہ زمین واپس مل جاتی ہے۔
ان سب میں ایک مشترکہ بات یہ ہے کہ کنٹونمٹ ایک خاص عارضی قیام کی جگہ ہے۔ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں سپریم کورٹ نے پہلے سطحی طور پر اور پھر اپنے دور کے اختتام پر تفصیل سے کہا کہ کنٹونمنٹس کو تقسیم کرنے اور بیچنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس لیے یہ نمام لیز جو آپ ذیلی ضوابط اور ضمنی قوانین کے تحت جاری کر رہے ہیں سبھی بنیادی طور پر متنازع ہیں۔
جب ٹینک رکھنے، پریڈ گراؤنڈ، یا دیگر اتحادی فوجی کاموں کے لیے کنٹونمنٹ کا استعمال ختم ہوجاتا ہے تو پھر جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے آپ کو وہ زمین سویلین حکومت کو واپس کرنی ہوگی۔ آپ اچانک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ نہیں بن سکتے اور وہ زمین بیچ نہیں سکتے۔
لیکن چونکہ یہاں ایسا ہو رہا ہے، تو ابتدائی قانون کے اندر اختراع کے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور خود کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے کرنے کی گنجائش موجود ہے اور یہ درست ہے۔ اس طرح ضمنی قوانین بنائے گئے اور لیز جاری کی گئیں۔
آپ نے پریڈ گراؤنڈ کے لیے زمین استعمال کرنے کی اجازت لی لیکن پھر ترمیم کی اور وہاں گالف کلب بنا۔ بات پھر گالف کلب سے آگے نکلی اور ایک سی این جی سٹیشن بھی بنا، پھر شادی ہال آئے۔
ایک ایسا قانون جس کا استعمال پریڈ گراؤنڈ کو ذہن میں رکھ کر زمین کے حصول کیلئے کیا جائے اور آپ اسے شادی ہال بنانے تک لے جائیں۔ تو یہ قدرے بیہودہ ہو جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے سیکشن 66 کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ قانون میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ یہاں صرف فوج یا فوج سے متعلقہ اہلکار ہی رہیں گے یا رہ سکتے ہیں۔