عمران خان اوران کے حواری اپنی وزارت عظمیٰ کے دور اور اس کے بعد بھی پاکستان کے کئی جانے مانے صحافیوں کو ببانگ دہل ’لفافہ صحافی‘ کا لقب دیتے رہے اور اس حوالے سے حال ہی میں انہوں نے ایک نئی اصطلاح ”بغل بچے“ بھی متعارف کروائی۔
اس الزام کی چھتری تلے پی ٹی آئی فالوورز کی کڑی تنقید کا نشانہ بننے والے صحافی حامد میر نے آج بعنوان ”لفافہ اعظم“ اپنے کالم میں عمران خان سے ان پرعائد الزامات کا جواب مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ،“ توشہ خانہ اسکینڈل میں سوالات کا جواب نہ دیا توآپ ”لفافۂ اعظم“ کہلائیں گے۔
اس مطالبے کی بنیاد حامد میرکی ایک آپ بیتی ہے جس میں انہیں بھی ”گھڑی“ تحفے میں ملی لیکن یہ سعودی ولی عہد کے بجائے سابق القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن نے دی تھی جو 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں کیے جانے والے امریکی آپریشن میں مارے گئے تھے۔
سال 1998 میں قندھارائرپورٹ کے قریب اسامہ بن لادن کی رہائشگاہ پر ان سے انٹرویو کرنے والے حامد میر لکھتے ہیں، ”دنیا کے مطلوب ترین شخص کی کلائی پر بندھی گھڑی میری توجہ کا مرکز بن چکی تھی۔ یہ 1998ء کا موسم گرما تھا، اسامہ بن لادن نے امریکا پر حملوں کا فتویٰ جاری کیا تھا اورکچھ پاکستانی علماء بھی اس فتوے کی حمایت کررہے تھے“۔
حامد میر کے مطابق اسامہ بن لادن کی گھڑی میں سے اذان کی آوازسن کران کی جانب سے دلچسپی دکھانے پراسامہ نے اپنی کلائی سے گھڑی اتاری اور بتایا، ”یہ عام سی واٹر پروف گھڑی ہے اوراذان کے اوقات بتاتی ہے، اگرآپ کو پسند ہے تو آپ رکھ لیں۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں گھڑی استعمال نہیں کرتا کیونکہ بہت سی گھڑیاں گم کر چکا ہوں۔ یہ سن کر اسامہ بن لادن مسکرائے اور انہوں نے وہ گھڑی دوبارہ اپنی کلائی پر باندھ لی۔“
اس واقعے کے 3 سال بعد11 ستمبر2011 کو دفترمیں بیٹھے حامد میرکو افغانستان سے ملنے کیلئے آنے والے ایک شخص نے رقعہ اور وہی گھڑی دی جسے انہوں نے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اس شخص نے کہا ، “ شیخ کا پیغام ہے کہ گھڑی گم نہیں کرنی“۔ حامد میر کے مطابق ، ”2 ماہ بعد نومبر 2001ء میں اسامہ بن لادن سے کابل میں آخری ملاقات میں میری کلائی پراپنا تحفہ دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ’’شکرہے ابھی یہ گم نہیں ہوئی“۔
حامد میرنے مزید بتایا کہ گزشتہ سال نائن الیون حملوں کے 20 سال پورے ہونے پرکینیڈا کے ایک میوزیم نے انہیں اسامہ بن لادن کی گھڑی فروخت کرنے کی پیشکش کی جس پرانہوں نے کہا، ”یہ ایک تحفہ تھا اسے میں فروخت نہیں کرسکتا“۔
صاحب تحریر کے مطابق انتہائی مہنگے داموں فروخت کرنے کی پیشکش پر،“ میں نے بڑی شائستگی کے ساتھ انہیں اپنی معاشرتی روایات کے متعلق بتایا اورکہا کہ تحفہ واقعی معمولی ہے لیکن ہم تحفے نہیں بیچتے۔ میوزیم کی طرف سے رابطہ کرنے والی خاتون وکیل نے کہا کہ آپ کا تحفہ ہے آپ کی مرضی ہے لیکن میرا رابطہ نمبر اور ای میل محفوظ کرلیں جب بھی آپ گھڑی بیچنا چاہیں تو ہم سے ضرور رابطہ کیجئے گا“۔
حامد میرکے مطابق توشہ خانہ کیس سے متعلق خبریں سامنے آنے پررواں سال فروری میں کینیڈین خاتون وکیل نے دوبارہ رابطہ کرکے کہا آپ نے یہ خبریں سنی ہیں کہ آپ کے وزیر اعظم نے سعودی کراؤن پرنس کی طرف سے تحفے میں دی جانے والی ایک گھڑی بیچ دی ہے؟ اثبات میں جواب پر خاتون نےشائستہ لہجے میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ، “ آپ تو کہتے تھے کہ تحفے بیچنا آپ کی معاشرتی روایات کے خلاف ہے تو پھرآپ کے وزیراعظم نے تحفہ کیوں بیچا؟“
تلخ جواب ملنے پر خاتون نے فوری معذرت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیے آپ کے وزیراعظم نے جو بھی کیا قانون کے مطابق کیا ہم بھی تمام قانونی تقاضے پورے کرکے آپ کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتے ہیں، آپ کو جو بھی رقم ملے اسے آپ فوری طور پر انکم ٹیکس اتھارٹیز کے سامنے ڈیکلیئر کردیجئے گا اپنے وزیراعظم کی طرح 3 سال بعد ڈیکلیئر نہ کیجئے گا آپ کو کوئی مشکل نہیں ہوگی“۔
انہوں نے مزید لکھا، “میں نے خاتون سے پوچھا کیا میں گھڑی آپ کو مفت عطیہ کرسکتا ہوں اور کیا آپ مجھے تحریری ضمانت دیں گی کہ آپ یہ گھڑی کسی اور کو فروخت نہیں کریں گی؟
خاتون نے کہا کہ میں جلد آپ کو دوبارہ کال کروں گی لیکن پھر ان کی کال نہیں آئی۔
15 نومبر کی شب جیونیوز پر شاہ زیب خانزادہ کے شو میں وہ خریدار سامنے آگیا جس نے سعودی ولی عہد کی طرف سے عمران خان کو تحفے میں دی جانے والی گھڑی خریدی۔
عمران خان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ”خان صاحب نے جو بھی کیا قانون کے مطابق کیا لیکن سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے ایک نہیں تین گھڑیاں بیچیں۔ انہوں نے توشہ خانہ سے انگوٹھیاں، ہار، کف لنکس، آئی فون اور نجانے کیا کیا اونے پونے داموں خریدا، اب انہیں بتانا ہوگا کہ یہ سب تحفے کہاں گئے؟“
کالم کے آخری حصے میں حامد میرنے اپنا مطالبہ سامنے رکھتے ہوئے لکھا، “خان صاحب اور ان کی پارٹی بہت سے صحافیوں کو لفافہ اور غدار کہتی رہی ہے، انہوں نے کبھی کسی الزام کا ثبوت نہیں دیا لیکن شاہزیب خانزادہ اس شخص کو سامنے لائے ہیں جس کے پاس عمران خان کو تحفے میں دی جانے والی گھڑی موجود ہے۔ خان صاحب بتائیں کہ یہ گھڑی عمر فاروق ظہور نامی ’’جرائم پیشہ‘‘ انسان کے پاس کیسے پہنچی؟ فرح خان اور شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ وہ عمر فاروق ظہور کو کبھی نہیں ملے۔ وہ اگرکبھی نہیں ملے تو کیا یہ گھڑی اڑ کر دبئی میں ایک ’’جرائم پیشہ‘‘ انسان کےگھر پہنچ گئی؟ “۔
حامد میرنے اختتامی سطرمیں عمران خان کو پیغام دیا ، “آپ اپنے ناقد صحافیوں کو لفافہ کہتے تھے، توشہ خانہ اسکینڈل میں سوالات کا جواب نہ دیا تو آپ ”لفافۂ اعظم“ کہلائیں گے۔