چیئرمین احمد حسین کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ایڈیشنل آئی جی پنجاب صدیق احسن نے داخلہ کمیٹی میں انکشاف کیا ہے کہ دریائے سندھ کے چھوٹے چھوٹے جزائر پر 19 کے قریب جرائم پیشہ گروپس ہیں جن میں 250 افراد شامل ہیں، 40 لاکھ روپے لگا چکے، کئی آپریشن کئے گئے لیکن حل نہیں نکل پایا۔
چیئرمین نیکٹا رائے طاہر نے کہا کہ آرمی اور رینجرز کو بلا کر بھی دیکھ چکے ہیں فوجی جوان جنگ کے طور پر لڑتے ہیں جس سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
ممبرکمیٹی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ لڑکی کی آوازوں میں لوگوں کو ٹریپ کرکے شہریوں کو اغواء کیا جاتا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے تجاویز مانگیں تو ایڈیشنل آئی جی پنجاب بولے ان علاقوں کو اسپیشل علاقہ قرار دیا جائے، تمام تھانوں کو بکتربند گاڑیاں فراہم کی جائیں، بلوچ لڑکوں کو بھرتی کیا جائے اور بھرتیوں کے ضابطے میں نرمی کی جائے۔
چیئرمین کمیٹی نے جعلی مقدمات کے اندراج پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ جعلی ایف آئی آر پر کئی کئی سال عدالتوں میں مقدمات چلتے رہتے ہیں، چاہتے ہیں جھوٹے مقدمے کرانے والے پر بھی ایف آئی آر ہونی چاہیے۔
چیئرمین کمیٹی بولے پاکستان میں 90 فیصد کام غیر قانونی ہوتے ہیں حل بتائیں۔
کمیٹی نے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے آئی جیزکو آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔