خلیجی ریاست کویت نے بدھ کے روز ایک پاکستانی سمیت سات افراد کو قتل کے جرم میں پھانسی دے دی۔
پھانسی پانے والوں میں ایتھوپیا اور کویت کی ایک خاتون، تین کویتی مرد، ایک شامی اور ایک پاکستانی شہری شامل ہیں۔
25 جنوری 2017 کو شاہی خاندان کے ایک فرد سمیت سات افراد کے ایک گروپ کو پھانسی دئیے جانے کے بعد سے یہ پہلی پھانسی ہے۔
منگل کو دیر گئے ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پھانسیوں کو روکنے پر زور دیتے ہوئے انہیں ”انتہائی ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سزا“ قرار دیا۔
ایمنسٹی کی ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر آمنہ گیلالی نے ایک بیان میں کہا کہ ”کویتی حکام کو فوری طور پر پھانسیوں پر ایک باضابطہ موقوف قائم کرنا چاہیے۔“
سزائے موت خلیجی خطے میں بڑے پیمانے پر رائج ہے، خاص طور پر ایران اور سعودی عرب میں، جہاں مارچ میں ایک ہی دن میں 81 افراد کو پھانسی دی گئی، جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی۔
کویت نے 1960 کی دہائی کے وسط میں سزائے موت کے نفاذ کے بعد سے اب تک درجنوں افراد کو پھانسی دی ہے۔ جن لوگوں کو یہ سزا دی گئی ان میں زیادہ تر قاتل یا منشیات کے اسمگلر تھے۔
اپریل 2013 میں کویتی حکام نے قتل کے مجرم تین افراد کو پھانسی دی اس کے دو ماہ بعد قتل اور اغوا کے مجرم دو مصریوں کو پھانسی دے دی گئی۔
کویت کی عدالتیں، جس کی ایک منتخب پارلیمان اور ایک فعال سیاسی منظر ہے، ماضی میں الصباح خاندان کے افراد کو موت کی سزائیں سنا چکی ہے جس نے ملک پر ڈھائی صدیوں تک حکومت کی ہے۔
گیلالی نے کہا، “ کویتی حکام کا فرض ہے کہ وہ سنگین جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے، مشتبہ افراد پر بین الاقوامی قانون کے مطابق ٹرائلز چلائے جانے چاہئیں جو کویت کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”حکام کو سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے فوری طور پر پھانسیوں پر ایک باضابطہ موقوف قائم کرنا چاہیے۔“
کویتی پبلک پراسیکیوشن سروس کا اس حوالے کہنا تھا کہ 2017 کے بعد دی جانے والی اس پہلی پھانسی پر انسانی حقوق کے ایک ممتازگروپ کی اپیلوں کے باوجود عمل درآمد کیا گیا۔