طاہرہ حسن تقریباً ایک سال سے ہر روز مچھر کالونی کے بچوں کے بارے میں نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو ٹوئٹر پر ٹیگ کرتی آرہی ہیں۔
یہ بچے کراچی میں پیدا ہوئے لیکن چونکہ ان کے والدین بنگالی بولنے والے ہیں، اسی لئے انہیں شہریت کے بنیادی کاغذات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے انہیں قومی شناختی کارڈ یا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہیں مل پارہا۔
پاکستان میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو یونین کونسل برتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے۔
پاکستانی قانون کے مطابق جو بھی اس مملکت میں پیدا ہوگا وہ یہاں کا شہری ہونے کا اہل ہے۔
یہ برتھ سرٹیفکیٹ نادرا کے پاس لے جایا جاتا ہے جو ایک ”بی فارم“ (ب فارم) جاری کرتا ہے جس سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والے بنگالی خاندانوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اور 1971 کی جنگ کی وجہ سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، جو ان بنگالی خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو اپنے ہی ملک میں بے وطن بنا دیتا ہے۔
یہ بچے اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے، میٹرک کے امتحانات نہیں دے سکتے، کالج نہیں جا سکتے، نوکریاں حاصل نہیں کر سکتے، بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے، یہاں تک کہ سفر تک نہیں کر سکتے۔ طاہرہ نے تقریباً پندرہ سال قبل مچھر کالونی میں کام کرنا شروع کیا، جو کراچی کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹیوں میں سے ایک ہے۔
ان کی غیر منافع بخش تنظیم (این پی او) امکان ویلفیئر آرگنائزیشن نے جب پایا کہ وہاں (مچھر کالونی) کے بچوں کے پاس کھیلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو تنظیم نے ”کھیل“ نامی ایک تفریحی مقام کھولا اور انہیں جمناسٹک سکھانے کے لیے ایک کوچ فرقان کی خدمات حاصل کیں۔
کچھ بچوں کی پرفارمنس اتنی اچھی تھی کہ انہوں نے شہری سطح پر مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ لیکن جیسے ہی ان شہبازوں نے پرواز کو مزید بلند کرنے کی کوشش کی وہ ایک نادیدہ چھت سے ٹکرا گئے۔
یہ بچے شناختی کارڈ کے بغیر سفر نہیں کر سکتے تھے اور اکثر سرکاری چیمپئن شپ میں بھی حصہ نہیں لے سکتے تھے۔
امکان کی لیگل ایڈ ٹیم ان بے وطن خاندانوں کی مدد پر کام کرتی رہی ہے جو پاکستانی قانون کے تحت شہریت دستاویزات حاصل کرنے کے اہل ہیں۔
لیگل ایڈ ٹیم نے عدالت میں مقدمات اور درخواستیں دائر کیں، وزیر اعظم کے سٹیزنز کمپلینٹ پورٹل پر دھوم مچائی، سی ایم ہاؤس اسلام آباد گئے اور نادرا کو ایک کے بعد ایک خط بھی لکھ ڈالا۔
بالآخر ایک دن طاہرہ کو چئیرمین نادرا طارق ملک کے دفتر سے فون آیا۔
خوش قسمتی سے چیئرمین نادرا کو سمجھ آگئی کہ یہ خاندان صرف پاکستان کے موجودہ قانون کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
”امکان“ کی جانب سے نادرا کو ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی جن میں یا تو عدالتی حکم پر عمل درآمد میں بہت زیادہ وقت لگ رہا تھا یا قانونی طور پر اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔
اور دھیرے دھیرے ایک کے بعد ایک کیس حل ہوتے گئے۔
ان خوش قسمت ”بے وطن“ بچوں کو بدھ کے روز پتا چلا کہ وہ اس شخص سے ملنے والے ہیں جس نے ان کی بے وطنی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نادرا کے چیئرمین طارق ملک مچھر کالونی آرہے تھے۔
طاہرہ حسن کا کہنا تھا کہ ”یہ زبردست ہے اور غیر حقیقی بھی، حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے دفتر نے دورے کیلئے خود رابطہ کیا، ہمیں ان کے پیچھے نہیں بھاگنا پڑا۔“
طارق ملک نے بچوں کے ساتھ قومی ترانہ پڑھا اور جمناسٹک ٹیم سے ملاقات کی۔
طارق ملک نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ”آپ ہمارے ہیرو ہیں، میں نے کہا کہ مجھے آپ سے ملنا چاہیے اور خاص طور پر آپ میں سے ان چاروں سے جنہیں سندھ سے ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا، میں چاہتا ہوں کہ آپ پاکستان کی نمائندگی کرتے رہیں۔“
انہوں نے لیگل ایڈ سنٹر کا دورہ کیا اور وہاں موجود عملے سے بات چیت میں کہا ”شناخت آپ کا بنیادی حق ہے اور یہ آپ کو ملنا چاہیے۔ اسی طرح شہریت بھی۔“
چئیرمین نادرا نے کہا ”ہم آپ کی وکالت بھی کر رہے ہیں، حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ قوانین ایسے ہوں کہ پیدا ہونے والے بچوں کو ان کا ب فارم ملے۔ ایک ریاست جو اپنے بچوں کو شمار نہیں کر سکتی، اپنے بچوں کی سرپرستی بھی نہیں کرسکتی، یہ اچھی بات نہیں ہے کیونکہ ریاست ماں ہے، ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اپنے بچوں کو قبول کرنا چاہیے۔“
نادرا کی ٹیم نے امکان لیگل ایڈ کے عملے سے کہا کہ وہ تعاون کریں گے تاکہ ایسے مقدمات حل کئے جاسکیں جو عدالت میں نہیں جانے چاہئیں۔“
طاہرہ نے کہا ”یہ عملے کے لئے انتہائی خوش کن تھا جب انہوں (طارق ملک) نے کہا کہ ’آپ وہ کر رہے ہیں جو ہمیں کرنا چاہئے‘۔ یہ ہمارے کام کا ایک بہت بڑا اعتراف تھا۔“
سندھ کی صوبائی چیمپئن شپ میں حال ہی میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی جمناسٹ سونیا ان لڑکیوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے ”گلاس سیلنگ“ کا سامنا کیا تھا۔
گلاس سیلنگ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتی خواتین کیلئے رکاوٹ بننے والے عوامل کیلئے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔
سونیا نے حال ہی میں اپنا ب فارم حاصل کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خواب بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں حصہ لینا ہے “ پھر میں کوچ بننا چاہتی ہوں!“