کینیا میں ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کی پیروی کرنے والی خاتون صحافی ارم عباسی کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے فوراً بعد ارشد شریف کو اسپتال کے بجائے فارم ہاؤس لے جایا گیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اگر ارشد کو گولیاں لگنے کے بعد ٹنگا فارم ہاؤس کی بجائے طبی مرکز لے جایا جاتا تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی؟
امریکی خبر رساں ادارے ”وائس آف امریکہ“ کی رپورٹر ارم عباسی نے ٹنگا فارم ہاؤس کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں سے 20 سے 25 کلومیٹر دور مگاڈی روڈ پر فائرنگ کے بعد جب خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا تو انہوں نے گاڑی کو ٹنگا فارم ہاؤس لے جانے کی ہدایت کی۔
”وقار اس وقت ایمو ڈمپ پر تھے۔“
خرم جب ٹنگا فارم ہاؤس پہنچے تو ان کے پیچھے وقار ایمو ڈمپ سے پہنچے اور پھر ان کے بعد جمشید اور جمشید کے فوراً بعد پولیس آگئی۔
23 اکتوبر کو پیش آنے والے اس تمام واقعے کے دوران ملازم جوزف مٹاؤ فارم ہاؤس پر ہی موجود تھے۔
بقول جوزف، خرم جب فارم ہاؤس پہنچے تو انہوں سے پانی مانگا اور پانی پی کر سبزے کی جانب چلے گئے۔
جوزف نے بتایا کہ وقار اور ان کی اہلیہ کو یہاں پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگا، اس کے بعد 20 سے 25 منٹ پولیس کو یہاں پہنچنے میں لگے۔
ارم نے جوزف کے حوالے سے بتایا کہ فارم ہاؤس پر پولیس اور جی ایس یو کے تقریباً 18 سے 20 اہلکار موجود تھے اور انہوں نے پھر تصاویر اور دیگر کارروائی میں اپنا وقت لیا، جس میں کچھ گھنٹے لگے اور پھر پولیس ارشد شیرف کی باڈی اسپتال لے کر گئی۔
جمشید کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ خرم کنفیوز اور پریشان ہوگئے تھے اس لیے وہ ارشد کو فارم ہاؤس لے کر آئے۔
فائرنگ کے بعد ارشد شریف فوری طبی امداد کی ضرورت تھی لیکن اس تمام کارروائی میں کافی وقت ضائع ہوا۔
تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ارشد شیرف کو بروقت اسپتال پہنچا کر بچایا جاسکتا تھا؟
خیال رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق گولیاں لگنے کے بعد ارشد شریف کی موقت 10 سے 30 منٹ کے درمیان ہوئی تھی۔