نئے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے ممکنہ ناموں اورتاریخ کے اعلان کے حوالے 25 اور26 نومبرکو نام سامنے لانے کا دعویٰ کرنے والے وزیردفاع خواجہ آصف نے اب اس حوالے سے مشاورت کی تاریخ بھی بتادی ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ آصف زرداری اوروزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان نئے آرمی چیف کے نام پر ڈیڈ لاک ہوا؟ جس پر وزیر دفاع کا کہنا تھا ابھی اس بارے میں مشاورت نہیں ہوئی تو ڈیڈ لاک کیسے ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ پاک فوج کی جانب سے 18 یا 19 نومبر کو نئے فوجی سپہ سالار کے لئے نام آئیں گے جس کے بعد مشاورت کے عمل کا آغازہوگا، البتہ تعیناتی کے لئے ن لیگ کا کوئی فیورٹ نام نہیں ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیانات پر قانونی کارروائی ہونی چاہئے، وہ ذاتی مفاد کے لئے قومی مفاد سے کھیل رہے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات کو خراب کررہے ہیں۔
اس سے قبل آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں سینئر اینکرعاصمہ شیرازی سے گفتگو صرف بڑے وثوق سے سینئر ترین افسر کو آرمی چیف لگانے کا عندیہ دینے والے وزیردفاع نے 25 اور 26 نومبر کو نام منظرپرلانے کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے نئے آرمی چیف کا نام قوم کو 25 یا 26 تاریخ کو معلوم ہوجائے گا۔ ادارہ 5 سے 6 نام دیتا ہے، جن میں سے ایک نام منتخب کرکے وزیراعظم اس کا اعلان کرتا ہے، ماضی میں جونیئر افسر آرمی چیف ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار سینئر ترین کو نیا آرمی چیف لگایا جائے گا، البتہ اس معاملے کو متنازع بنادیا گیا ہے۔
اسی دوران انگریزی رونامہ ڈان نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت آرمی ایکٹ میں ترمیم کررہی ہے جس کی بدولت وزیراعظم کو اختیار مل جائے گا کہ وہ ”بہ یک جنبش قلم“ کسی بھی فوجی عہدے کو اس کے عہدے پر غیر معینہ مدت کے لیے برقرار رکھ سکیں گے جب کہ فوجی افسران کے لیے استعفے کا لفظ بھی ایکٹ میں شامل کیا جائے گا۔
اخبار نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ترمیم کس افسر کو برقرار رکھنے کے لیے کی جا رہی ہے تاہم اس کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں وزیراعظم محض ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ کام کر سکیں گے اور وزارت دفاع کے ذریعے سمری بھیجنے اور پھر وزیراعظم کی منظوری کی ضرورت نہیں رہے گی۔
یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2019 میں توسیع دینے کا نوٹیفکیشن عدالت میں چیلنج ہوا تھا کیونکہ اس وقت توسیع سے متعلق قانون نہیں تھا۔ اسی بنا پر حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ایک مرتبہ ازسرنو تقرری کا اختیار شامل کیا تھا۔ اب موجودہ حکومت اس میں مزید ترمیم کرکے نوٹیفکیشن کا جواز پیدا کر رہی ہے۔
موجودہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 27 نومبر ہے۔ سوشل میڈیا پر دعوے کیے جا رہے ہیں کہ حکومت عاصم منیر کی مدت میں توسیع کرنا چاہتی ہے تاکہ انہیں آرمی چیف لگایا جاسکے تاہم ان دعوؤں کی کسی سرکاری ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی ٹویٹ بھی اسی بات کا اشارہ دے رہی ہے۔
شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، “ حکومت 1952 کے آرمی ایکٹ کے سیکشن 176:2 اے میں لفظ ’دوبارہ تقررری‘ کے بعد ’ریٹینشن (برقراررکھنا)‘ اور لفظ ’استعفیٰ‘ کے بعد لفظ ’ریلیز‘ کا اضافہ کرکے ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے’۔
شیریں مزاری کے مطابق ،”اس حوالے سےسمری کابینہ کمیٹی کو بھیجی گئی تھی لیکن میٹنگ ملتوی کردی گئی کیونکہ مفرورنوازشریف نے اسحاق ڈار کو سی سی ایل سی میں رہنے کی ہدایت کی“۔