پاکستانی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرکل سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے زخموں کی تصاویروائرل ہیں جوانہیں 3 نومبروزیرآباد میں حقیقی آزادی مارچ کے دوران کنٹینرپرفائرنگ کے دوران گولیاں لگنے سے آئے تھے۔
گزشتہ روز عمران خان کا پلاسٹر اتارتے ہوئے بنائی جانے والی ویڈیو سامنے آئی جس میں ان کی دائیں ٹانگ کے اوپری حصے میں 2 اورٹانگ کے نچلے حصے میں ایک زخم نمایاں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسی صورت حال میں تبصرہ کرنےوالے چیئرمین پی ٹی آئی کی صحتیابی کی دُعاکرتے لیکن پاکستانی قوم کا سب سے محبوب مشغلہ ہی شاید دوسروں کے زخموں پرنمک چھڑکنا بن چکا ہے جس کا اندازہ سوشل میڈیا پرایک دوسرے کے مخالفین کے لیے انتہائی نامناسب زبان وبیان سے بخوبی ہوتا ہے۔
اور یہ کسی ایک کا حال نہیں، اجتماعی سے لے کرانفرادی سطح تک بڑی تعداد ’سیاسی وجذباتی وابستگیوں‘ کے ہاتھوں اتنی بری طرح سے مجبور ہے کہ کیا کہنے۔ سواس باربھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا اور نشانہ ٹھہرے عمران خان جن کے زخموں کی وہ وہ تشریح دیکھنے میں آئی کہ الامان الحفیظ ۔
جہاں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والوں نے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے باورکروایا کہ آپ تو کہتے تھے ڈرامہ ہے، اب یہ زخم دیکھ لیں تو وہیں دوسری جانب سے بھی ایک بار پر بھرپورقیاس آرائیاں دیکھنے میں آئیں۔
ماہرین ’زخمیات‘ نے عمران خان کو 3 یا 4 گولیاں لگنے کے زخموں کو ’ادھیڑتے‘ ہوئے ایسی ایسی پس پردہ وجوہات پرروشنی ڈالی کہ دیکھنے ، سننے اورپڑھنے والے بھی خود کو کسی ماہرسرجن، فارنزک ایکسپرٹ اور پروستھیٹک میک اپ آرٹسٹ سے کم نہیں سمجھیں گے۔
ان کے تحفظات پر ایک نظرڈالیں۔
جواب میں صارفین کا تجزیہ دیکھ لیجئے۔
عمران خان کو لگنے والی چوتھی گولی پر بھی بھرپور تشویش دیکھنے میں آئی۔
انہیں بھی یہ زخم نقلی ہی لگ رہے ہیں۔
اس بحث میں کئی ڈاکٹرصاحبان نے بھی حصہ لیا جن سےاپنے شعبے کی ایسی کھنچائی ہضم نہیں ہوئی تو وہ دلیل سے قائل کرنے آگئے۔
عمران خان کے حوالے سے کی جانے والی ٹویٹس دیکھ کر ذہن میں ملالہ یوسفزئی کا خیال بھی اتا ہے جنہیں 2012 میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پرسوات میں اسکول سے واپس آتے ہوئے طالبان نے فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بعد میں ملالہ کوبہترعلاج معالجے کیلئے برطانیہ منتقل کردیا گیا تھا جہاں کافی عرصے ان کا علاج جاری رہا۔
غیرملکیوں نے ملالہ کی بھرپورقدرکی لیکن پاکستان میں ناقدین نے ان کے سرپرلگنے والی گولی کوبھی ڈرامہ قراردیا تھا۔
ایسی ہی صورتحال سامنا صحافی حامد میرکو بھی کرنا پڑاتھا جب کراچی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد سوشل میڈیا پربجائے اظہار ہمدردی کے انہیں بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔