وزارت اطلاعات ونشریات نے پاکستانی فلم جوائے لینڈ کی ملک بھر کے سینما میں نمائش پر پابندی عائد کردی ہے لیکن ایسا پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں سے سنسر شپ کے نام پر مختلف فلموں پر پابندی لگائی جاچکی ہیں ۔
یہاں ہم نے ایسی پاکستانی فلموں کی فہرست پیش کی ہیں جن کی نمائش پر پابندی لگائی گئی یا جنہیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
جاگو ہوا سویرا - 1959
جاگو ہوا سویرا 1959 کا ایک ڈرامہ ہے جسے اردو کے مشہور شاعر، فیض احمد فیض نے فلمایا تھا اور جس کی ہدایت کاری اے جے کاردار نے کی تھی، یہ سابق مشرقی پاکستان - اب بنگلہ دیش میں ایک غربت زدہ ماہی گیر کی جدوجہد پر مبنی تھا۔
فلم کی ریلیز سے چند دن پہلے ایوب خان کی حکومت نے اس کے ”تخریب انگیز سوشلسٹ مواد“ کی وجہ سے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
فلم کو 2016 میں کانز فلم فیسٹیول میں دکھایا گیا تھا ۔
کرتار سنگھ – 1959
پنجابی فلم 1947 میں تقسیم کے وقت ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان ہونے والے فسادات پر مبنی ہے ۔
سیف الدین سیف کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم حقیقی زندگی کے واقعات پر مبنی ہے لیکن ابتدا میں پاکستان میں ایک سکھ کا کردار ادا کرنے والے ہیرو کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔
بعد ازاں سنسر بورڈ نے فلم کو تھیٹر میں ریلیز کرنے کی منظوری دے دی اور یہ پاکستان کی سپر ہٹ بلاک بسٹر پنجابی فلموں میں سے ایک بن گئی ۔
جیبون تھیکے نیا - 1970
سن 70 کی فلم تھیکے نیا بنگالی زبان کی پاکستانی فلم ہے جس کی ہدایت کاری ظاہر رحمٰن نے دی ہے ۔
یہ فلم بنگالی زبان کی تحریک پر مبنی ہے، پابندی کے بعد اس وقت مشرقی پاکستان کے لوگوں نے احتجاج کیا تو حکومت نے فلم کو کلیئر کر کے ریلیز کر دیا تھا۔
انسان اور گدھا - 1973
فلم انسان اور گدھا کو سید کمال نے تحریر کیا تھا اور انہوں نے ہی فلم کی ہدایتکاری کی اور اسے پروڈیوس کیا تھا یہ ایک اردو زبان کی فلم ہے جو پاکستان کے انسانی حالات پر مبنی ہے۔
فلم کی ریلیز کے چند ہی ہفتے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اسے ایک سین کی وجہ سے سینما گھروں سے ہٹادیا گیا تھا جس میں بھٹو کی تقریر کرنے کے انداز کا مذاق اڑایا گیا۔
تاہم ایک ماہ بعد فلم کو سینما گھروں میں واپس آنے کی اجازت مل گئی تھی ۔
بیگم جان - 1977
فلم نے خیبرپختونخوا میں اچھا بزنس کیا لیکن دوسرے شہروں میں اس کی نمائش نہیں ہوئی۔
بیگم جان صوبے کی ایک خاتون کے بارے میں ہے جو گھر گھر جا کر اشیاء فروخت کرتی ہے اور شادی کے بعد ایک بچے کو جنم دیتی ہے۔
عورت راج - 1979
کامیڈین رنگیلا کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم عورت راج کا شمار پاکستان کی پہلی فیمینسٹ فلموں میں ہوتا ہے اسے بہت زیادہ مقبولیت کے ساتھ ریلیز کیا گیا اور پھر پابندی لگا دی گئی۔
فلم میں اداکارہ رانی، وحید مراد اور سلطان راہی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
مولاجٹ - 1979
سال 1979 کی کامیاب ترین فلم مولاجٹ کو یونس ملک نے ڈائریکٹ کیا تھا فلم کو ضیاء الحق کی حکومت نے اچانک سینما گھروں سے ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ فلم پنجاب کے دیہی علاقوں میں بغاوت کو ہوا دے رہی ہے۔
تاہم اس کے فوراً بعد پروڈیوسر عدالت سے حکم امتناع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور فلم کو سینما گھروں میں پیش کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔
دی بلڈ آف حسین - 1980
دی بلڈ آف حسین، جمیل دہلوی کا 1980 کا ایک ڈرامہ ہے جو ایک پاکستانی خاندان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی زندگی اور موت پر مبنی ہے۔
جنرل ضیاء کی حکومت نے اس فلم کو جابرانہ انداز میں پیش کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
میلہ - 1981
حسن عسکری کی ہدایت کاری اور انور کمال پاشا کی پروڈیوس کردہ اس فلم میں جنرل ضیاء کی حکومت کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم اس فلم پر فوری پابندی عائد کردی گئی۔
بعد میں اسے برطانیہ کے چینل 4 پر نشر کیا گیا۔
زر گل - 1997
سلمان پیر زادہ کی بنائی گئی فلم زر گل ریاست کے خلاف لڑنے والے باغی اور انقلابی کے بارے میں ہے۔
یہ فلم بھی حکومت سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
خاموش پانی - 2003
صبیحہ سمر کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم کی کہانی جنوبی پنجاب کے ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے جو ضیاء الحق کے دور حکومت میں بڑھتی ہوئی مذہبی بنیاد پرستی سے متاثر ہے۔
فلم کو ریویو کے لیے جمع کرانے سے پہلے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ اس میں ہندوستانی اداکار تھے۔
سلیکستان - 2010
فلم سالکستان کی ہدایت کاری حماد خان نے دی ہے فلم ایک ایسے نوجوان کے بارے میں ہے جو سیاسی بحران کے دوران پاکستان میں رہتے ہوئے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کے درمیان الجھ جاتا ہے ۔
سینسر بورڈ نے فلم میں انگریزی اور اردو کے الفاظ ’طالبان‘ اور ’لیزبیئن‘ استعمال کرنے کی وجہ سے فلم پر پابندی لگا دی۔
بیسائجڈ ان کوئٹہ - 2016
آصف علی محمد کی دستاویزی فلم کوئٹہ کی ہزارہ برادری کی حالت زار پر مبنی ہے۔
اس دستاویزی فلم میں ملک کے منفی پہلو کو پیش کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
آمنگ دی بیلیورز - 2016
ہیمل ترویدی اور محمد علی نقوی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس دستاویزی فلم پر سنسر بورڈ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی کیونکہ اس میں ایسے مکالمے تھے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی کے تناظر میں پاکستان کی منفی تصویر پیش کرتے ہیں۔
مالک - 2016
پولیٹیکل تھرلر فلم مالک کی ہدایات عاشر عظیم نے دی تھیں اس فلم کی ریلیز کے ایک ہفتے بعد ہی سندھ بورڈ آف فلم سنسر نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
ورنا - 2017
شعیب منصور کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ریپ کا شکار ہونے والے افراد اور اس کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔
فلم کے حوالے سے سنسر بورڈ نے کہا تھا کہ فلم کا عمومی پلاٹ ریپ کے گرد گھومتا ہے جسے ہم ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔
فیصلے کے خلاف مظاہروں کے بعد فلم کو بغیر کسی سنسر کے ریلیز کر دیا گیا۔
جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر - 2019
یہ فلم سیریل کلر جاوید اقبال کی حقیقی زندگی کے واقعات پر مبنی ہے جس کے ہدایت کار ابو علیحہ ہیں۔
اس فلم کی ریلیز سے ایک دن پہلے ابتدائی طور پر سنسر کی منظوری ملنے کے باوجود اس پر پابندی لگادی گئی تھی۔
زندگی تماشا - 2019
سرمد کھوسٹ کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم زندگی تماشا کے ٹریلر میں عندیہ دیا گیا تھا کہ فلم میں مذہب اور سیاست کا لبادہ اوڑھے لوگ کس طرح اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔
فلم کا ٹریلر سامنے آنے کے بعد ایک انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت نے فلم کے خلاف مظاہرے شروع کیے اور سوشل میڈیا پر بھی فلم کے ریلیز ہونے کے خلاف مہم چلائی تھی جس کے بعد فلم کی ریلیز پر پابندی لگادی گئی تھی۔
درج - 2019
شمعون عباسی کی تحریر اور ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم سچے واقعات پر مبنی ہے، جو زیادہ تر نسل کشی کے گرد گھومتی ہے۔
سنسر بورڈ نے عوام کے دیکھنے کے لیے ”نامناسب“ قرار دیتے ہوئے فلم پر پابندی لگا دی تھی لیکن بعد میں اسے مقامی طور ریلیز کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔
آئی ول میٹ یو دیئر - 2020
ارم پروین بلال کی ایک ڈرامہ فلم آئی ول میٹ یو دیئر ایک پاکستانی نژاد امریکی خاندان کے گرد گھومتی ہے۔
سنسر بورڈ نے اس فلم پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلم حقیقی پاکستانی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی اور اس میں مسلمانوں کی منفی تصویر کو پیش کیا گیا ہے ۔
جوائے لینڈ - 2022
فلم جوائے لینڈ کو کانز فلم فیسٹیول میں ’کانز: کوئیر پام‘ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جو کہ خصوصی طور پر ہم جنس پرست یا پھر مخنث افراد کی کہانیوں پر مبنی فلموں کو دیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں جوائے لینڈ کو رواں 18 نومبر کو ریلیز کیا جانا تھا۔
فلم کی کہانی ایک نوجوان اور ٹرانس جینڈر کے گرد گھومتی ہے جو کہ ڈانس کلب میں ملازمت کے دوران ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
تاہم گزشتہ دنوں وزارت اطلاعات ونشریات نے فلم جوائے لینڈ کی ملک بھر کے سنیما میں نمائش پر پابندی عائد کرتے ہوئے فلم کو جاری کردہ سنسربورڈ کا سرٹیفیکیٹ منسوخ کردیا۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی فیچر فلم جوائے لینڈ کو فلم سنسر بورڈ نے نمائش کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا تھا تاہم فلم ریلیز ہونے کےبعد تحریری شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں فلم کے مواد کو انتہائی قابل اعتراض ،پاکستانی معاشرے کی سماجی اقدار اور اخلاقی معیار سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے موشن پکچرز آرڈیننس 1979 کی شق 9 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا وفاقی حکومت مذکورہ آرڈیننس کی شق 9 کے تحت دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے فلم کی نمائش کیلیے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ منسوخ کرتے ہوئے ملک بھر کے سنیماز میں فلم کی نمائش پر فوری طور پر پابندی عائد کرتی ہے۔