خیبرپختونخوا میں قیام امن کے لیے پورے خطے میں کئی مہینوں سے مظاہرے جاری ہیں جن میں تازہ ترین اضافہ اتوار کو جنوبی وزیرستان میں مختلف دیہاتوں کے ہزاروں افراد نے سیاہ اور سفید جھنڈوں کے ساتھ وانا بازار سے انگور اڈا تک مارچ کے زریعے کیا۔ ایسا نظارہ 2014 سے پہلے ایک خواب ہی ہوتا۔
آج انگلش کے مطابق وانا کے احتجاج کی میڈیا کوریج میں دشواری معاملے کی وضاحت یا رپورٹرز کی وہاں موجودگی نہیں بلکہ احتجاج کا موضوع تھا۔
ان مظاہروں کو سوشل میڈیا تک محدود رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مشکل موضوع کے بارے میں ہے، ایک ایسی جگہ جہاں گندی لڑائی ہوتی رہی ہو اور جب آپ اس لڑائی کے نتائج رونما ہونے والے اثرات کو بیان کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو آپ کو کسی ایک فریق کی طرفداری کے الزامات کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں، مسئلے کا ذکر تک کچھ لوگوں کو مشتعل کرسکتا ہے۔
لیکن، در حقیقت وانا میں یہ لوگ ایک ویدیو کے منظر عام پر آنے کے بعد احتجاج کرنے نکلے ہیں جس میں ملا نذیر گروپ کے ”کمانڈر ٹائیگر“ کہلائے جانے والے شخص کہا ہے کہ ان کا گروپ 15 نومبر سے نظام کو چلانے کے لیے وانا کا کنٹرول سنبھال لے گا۔
ملا نذیر 2013 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جس کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا گروپ چار دھڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
اس ویڈیو پر اتنی تشویش تھی کہ عمائدین کا ایک گروپ 19 نومبر کو اس معاملے پر بات کرنے کے لیے حکومت سے ملاقات کرے گا۔
اس احتجاج کا مقصد عوامی طور پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ وانا کے لوگوں نے عسکریت پسندوں کی واپسی کی حمایت نہ کرتے ہوئے اور پولیس اور انتظامیہ پر بھروسہ کیا ہے، جس کا کام ان کے خیال میں امن و امان برقرار رکھنا ہے۔ اگر حکومت ان کے خیال کی توثیق چاہتی ہے تو انہیں مزید ثبوتوں کی ضرورت نہیں۔
اور جب کہ وانا کے اسسٹنٹ کمشنر یاسر کنڈی نے اس بات کی تصدیق کی کہ لوگ امن برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ سن کر حیرت ہوئی کہ وہ احتجاج کو کچھ نہیں سمجھتے۔
انہوں نے پیر کو آج نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وانا کی آبادی 300,000 ہے اور اگر 2,000 لوگ احتجاج کرتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”خدا کا شکر ہے سیکیورٹی ایجنسیوں اور عوامی پولیس کی قربانیوں سے جنوبی وزیرستان میں امن قائم ہے۔ قتل و غارت ہر جگہ ہوتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ امن نہیں ہے۔ کچھ عناصر ایسے واقعات کو ہوا دیتے ہیں۔“
اسسٹنٹ کمشنر کنڈی نے اعتراف کیا کہ احتجاج کرنا عوام کا حق ہے لیکن انتظامیہ اپنے فرض سے غفلت نہیں برت رہی۔
وانا اُولسی پسون نے وزیرستان میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں متعدد سیاسی جماعتوں، پی ٹی آئی، اے این پی، جے آئی، این ڈی ایم، پی ٹی ایم، پی کے ایم اے پی اور پی پی پی کے مقامی رہنماؤں نے شرکت کی، تاہم ایک بڑی سیاسی جماعت جے یو آئی نمایاں طور پر غیر حاضر رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں امن قائم کرنے کے لیے الگ الگ ضلعی پولیس افسران، ڈسٹرکٹ کمشنرز کی تعیناتی اور وانا میں جوڈیشل کمپلیکس کھولنے کی ضرورت ہے۔
جنوبی وزیرستان فاٹا کا حصہ تھا لیکن قانون میں تبدیلی (25ویں آئینی ترمیم) کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری سول انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز پر آگئی۔
مظاہرین نے مطالبات پیش کرتے ہوئے آرٹیکل 9 (شخص کی حفاظت) اور آرٹیکل 18 (تجارت، کاروبار یا پیشے کی آزادی) کو آئینی حقوق کے گردانا۔مظاہرین نے ملابہ کیا کہ،
وزیر ایک مقامی ٹھیکیدار کے بھائی ہیں۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں عسکریت پسندوں نے دو ہفتے قبل اغوا کیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پریشانی پیدا کرنے والے، یہ کام علاقے میں ”اپنی موجودگی کا احساس دلانے“ کے لیے کرتے ہیں اور اس طرح وہ خوف کا بیج بوتے ہیں۔
پچھلے کئی مہینوں کے دوران، ارکان پارلیمنٹ پر حملے کیے گئے، دھمکیاں دی گئیں، سیکیورٹی افسران کو نشانہ بنایا گیا، اور لوگوں کو ہراساں کیا گیا۔
ڈی پی او ساؤتھ عتیق وزیر نے آج نیوز کو بتایا کہ وانا میں صورتحال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے، اور وہاں سیکیورٹی اہلکار اور پولیس موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”امن مکمل طور پر بحال ہو گیا ہے“ اور دعویٰ کیا کہ چند ایک واقعات کو کچھ لوگ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس علاقے میں ہر جگہ موجود تھی اور کسی بھی جارحیت سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔
عتیق وزیر نے کہا، ”پولیس کی طرف سے امن برقرار ہے جنہوں نے قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔“
یہاں تک کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ وانا میں ہونے والے احتجاج کا کچھ حصہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کی وجہ سے ہوا تھا۔ ان کے مطابق، لوگوں نے اس ویڈیو کو ”ٹھوس ثبوت“ کے طور پر دیکھا کہ مصیبت جاری ہے۔
لیکن وانا میں ہونے والا احتجاج اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ہے جو پشتون علاقوں میں دو ماہ سے جاری ہے۔
پشتین کے مطابق، سوات، بونیر، دیر، باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم، وزیرستان، لکی مروت اور بنوں میں لوگوں نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
انوہں نے کہا کہ ”آپ نے دیکھا ہوگا لوگ ایک کے بعد ایک باہر آرہے ہیں اور باآواز بلند بدامنی کی مخالفت کر رہے ہیں۔“
انہوں نے ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے آج نیوز کو بتایا، ”ہمارے علاقوں میں، ہم اپنی سول انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ کسی بھی تنظیم یا گروہ کو اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو بھی انتظام چلانے کے لائق سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔“
ان کی رائے میں، یہ مظاہرے اس بات سے جڑے ہوئے ہیں جسے وہ امن مذاکرات کے بعد سے کالعدم طالبان کے ”مقدمات“ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ احتجاج کرنا کتنا مفید ہوگا، تو پشتین نے کہا: ”ہم بے بس لوگ ہیں۔ ہم اگر زور نہیں رکھتے، تو شور کا سہارا لیتے ہیں۔“
ان کا کہنا تھا کہ ہم بے بس ہیں۔ ہم طاقت کا اطلاق نہیں کر سکتے لیکن ہم بات کر سکتے ہیں۔پشین نے کہا کہ ”ہم مزاحمت کے تمام طریقے استعمال کریں گے جو ہمارے لیے دستیاب ہیں۔ یہ طاقتوں کا موازنہ نہیں ہے، یہ ہماری بقا کی جنگ ہے۔“
وہ نہیں چاہتے تھے کہ بچوں کی ایک اور نسل جنگ اور تنازعات میں آنکھ کھولے۔ مظاہرین حکام پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والی پالیسیوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ”اب تک چند مطالبات پورے ہو چکے ہیں، جیسے کہ چیک پوسٹیں یا لاپتہ افراد کی رہائی۔ لیکن ابھی بہت زیادہ کام ہونا باقی ہے۔“
پشتین نے مزید کہا کہ یہ احتجاج پولیس کے تحفظ کے لیے بھی کیا گیا تھا، جو صوبے میں دفاع کی پہلی لائن رہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سچائی اور مصالحتی کمیشن بنایا جائے۔
اتفاق سے، سچائی اور مصالحتی کمیشن کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سال 19 اکتوبر کو شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کی بھاری قیمت کے پیش نظر بلوچستان کے لیے بھی ایک کمیشن کی ضرورت ہے۔
اے پی پی نے شیری رحمٰن کے حوالے سے کہا تھا کہ دہشت گردوں کو سوات یا دیگر علاقوں میں دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔