سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ قانون کا ایک بنچ مارک ہے جس سے نیچے لاقانونیت ہوتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی بدعنوانی کرنے کی ہمت نہ کرے، قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ قانونی معیارعدالت نہیں آئین طے کرتا ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہوجائے گا؟
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے حالیہ نیب ترامیم بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر دلائل دیئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ ہر ویک اینڈ کے بعد کیس میں ایک نیا نکتہ نکال لیتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہورہی ہے؟ کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آسکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے، کیا اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کرسکتے ہیں؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کردے؟ اس طرح توعالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں، عدالت ایگزیکٹیو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کرسکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہو۔
جسٹس اعجازالااحسن نے ریمارکس دیئے کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سےعوام کےہی حقوق متاثر ہوںگے قوانین کوبین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، حضرت عمرکے زمانے میں ایک اضافی بھینس رکھنے پر بھی احتساب ہوتا تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا کہ بین الااقوامی معیار کے مطابق جس ملک میں کرپشن ہوگی اس کا بیڑا غرق ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اتفاق نہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے قانونی معیارعدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔ اگرکرپشن پر قوانین موجود ہی نہ ہوں توعدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں، آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہوجائےگا؟ کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہواہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کرکے کرپشن چارجز ختم کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس منظور علی شاہ نے کہا کہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں تو بنیادی حقوق کیسے متاثر ہوگئے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبرتک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔