ایک طرف جہاں لوگ نئے موسم اور سردیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے گرم کپڑے نکال اور پہن رہے ہیں، وہیں بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی اور جعفر آباد کے لوگ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب میں گھروں، نقدی اور فصلوں کی تباہی کے بعد اب بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے خاندانوں کو جھونپڑیوں میں سمونے کی کوشش کرتے ہوئے ان کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے، مدد۔
جامع مسجد یا رسول اللہ کے پیش امام اللہ بخش بگٹی کہتے ہیں، ”حالیہ بارش کی وجہ سے میرے پاس (گھر کے) تین کمرے تھے جن کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ میں مسجد کا خطیب بھی ہوں اور چار سے پانچ ہزار روپے کی رقم سے اپنا گزارا نہیں کر سکتا۔“
تحصیل سوئی کے علاقے جویز کالونی میں واقع ان کے مکان کی چھت نہیں ہے، دیواریں گر چکی ہیں اور صرف ملبہ بچا ہے۔ ایک دروازہ تو ہے لیکن وہ بھی اس ملبے کی طرف لے جاتا ہے جو اس مٹیریل کی باقیات پر مشتمل ہے جس سے بلوچستان میں گھر بنائے جاتے ہیں۔
امام اللہ بخش اب اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ایک ایسی جگہ پر رہ رہے ہیں، جسے دو طرف سے دیوار اور دو طرف سے ترپال کے پرانے ٹکڑوں سے ڈھکا گیا ہے۔ اس کا کوئی دروازہ نہیں ہے۔ چھت لمبے بانس اور ٹہنیوں سے بنی ہے جنہیں کپڑے کی دھجیاں باندھ کر جوڑا گیا ہے۔
اللہ بخش نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ”براہ کرم اس مہنگائی کے دور میں (ہم پر) توجہ دیں۔ میں کس طرح جیوں، مجھے ان تمام (گھر گرنے) اخراجات کے لیے مدد کی ضرورت ہے تاکہ آسانی اور سکون سے رہ سکوں اور آپ سب کو دعاؤں میں یاد رکھ سکوں۔“
بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے وسط جون سے پاکستان میں تقریباً 33 ملین افراد کو بے گھر کر دیا ہے، جس میں سندھ کے بعد بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ سیلاب سے صوبے میں کم از کم 336 افراد ہلاک اور 187 زخمی ہو چکے ہیں۔
نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سنٹر کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک دو لاکھ سے زائد مستحقین میں پانچ ارب روپے سے زیادہ کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔
جعفرآباد اور صحبت پور کے کئی سیلاب زدگان کی حالت زار تقریباً ایک جیسی ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ حکومت یا مقامی انتظامیہ کا کوئی اہلکار ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔
سیلاب متاثرین میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ”ہم یہاں سے موری منتقل ہو گئے ہیں، جسے شیروا موری بھی کہا جاتا ہے۔ ہم بغیر کسی مدد کے وہاں بیٹھے ہیں۔ ہم تقریباً 35 سے 40 خاندان ہیں۔“
جعفرآباد میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ہزاروں لوگ بغیر کسی پناہ گاہ اور سامان کے زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا الزام ہے کہ حکومت نے اب تک 25,000 روپے کی نقد رقم خاندانوں کو فراہم نہیں کی ہے۔
محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق جعفرآباد، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، صحبت پور، لسبیلہ اور ڈیرہ بگٹی میں ایک لاکھ سے زائد افراد متعدی امراض کی وجہ سے بیمار ہوچکے ہیں جن کی تعداد درج ذیل ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے میڈیا کوآرڈینیٹر شعیب ہاشمی نے ٹیلی فون کال کے ذریعے آج نیوز کے سوال کے جواب میں کہا کہ ”اس وقت بحالی ایک بڑا چیلنج ہے۔“
الخدمت فاؤنڈیشن جو کہ سیلاب کے پیش نظر امدادی اداروں میں سے ایک ہے، نے ملک بھر کے سیلاب سے متاثرہ 12 اضلاع میں بحالی کا کام شروع کر دیا ہے۔
شعیب ہاشمی نے بتایا کہ تنظیم نے سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تین مراحل پر عمل کیا، ریسکیو، ریلیف اور بحالی۔
تنظیم کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو بچانے کے بعد موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس اور موبائل میڈیکل ہیلتھ سروسز شروع کردی گئیں۔
انہوں نے اگست میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ ”موبائل صحت خاص طور پر ماں اور بچوں کی صحت کا احاطہ کرتی ہے۔“
اس میں کہا گیا ہے کہ کم از کم 650,000 حاملہ خواتین، جن میں سے 73،000 کی ستمبر میں پیدائش متوقع ہے، کیلئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زچگی کی صحت کی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن چھ زونز اور 12 فیلڈ ہسپتالوں میں بہت سے چھوٹے ہسپتال چلا رہی ہے۔
ہاشمی نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم حاملہ خواتین کی رجسٹریشن میں دیگر این جی اوز اور حکومت کے ساتھ بھی تعاون کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بھی گھروں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
”ہم کمیونٹی کی شمولیت کے مقصد کے ساتھ لوگوں کو رہائشی میٹیریل فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ایک سست عمل ہے کیونکہ آگاہی میں وقت لگتا ہے۔“
ان کا خیال ہے کہ صورتحال گزشتہ دو تین ماہ سے بہتر ہے، جب سیلاب زدہ علاقوں کی طرف جانے والی زیادہ تر سڑکیں صاف نہیں تھیں۔ لیکن، پھر بھی، کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں اشیاء کی ترسیل میں وقت لگ رہا ہے، جیسے سندھ میں دادو سے شہباز قلندر تک کا ٹریک۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم نے لوگوں کو 60,000 سے زیادہ خیمے اور ترپال فراہم کیے ہیں۔ ہم موسم سرما کا ایک پیکیج ایک عام پروگرام بھی فراہم کریں گے جس میں گرم کپڑے، بستر اور لحاف شامل ہیں۔“
شعیب ہاشمی نے کہا کہ ان کی تنظیم نے ملک میں آنے والے گندم کے بحران کو روکنے کے لیے کسان پیکج شروع کیا ہے۔ جس کے تحت ایک سے پانچ ایکڑ سے کم اراضی والے کسانوں کو بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ مزید یہ کہ ایک کنسلٹنٹ کی قیادت میں 25 کسانوں کی ایک ٹیم بھی اگلے فصل کے سیزن کی مدد کے لیے بنائی گئی ہے۔