Aaj Logo

شائع 11 نومبر 2022 12:59pm

ارشد شریف پر تشدد ہوا یا نہیں، کینیائی صحافیوں نے معاملہ الجھا دیا

کینیا میں قتل کیے جانے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف پر قتل سے قبل تشدد کا معاملہ الجھ گیا ہے۔ جہاں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تصدیق کر چکے ہیں کہ ارشد شریف کو قتل کیے جانے سے قبل ان پر شدید تشدد کیا گیا وہیں کینیا کے صحافیوں نے دعوے کیے ہیں کہ پاکستانی صحافی پر تشدد سے متعلق دعوے بے بنیاد ہیں اور یہ تحقیقات کو خراب کر دیں گے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ جس طرح کے ارشد شریف کے جسم پر نشانات ہیں اس سے لگتا ہے کہ انھیں ٹارچر کیا گیا ہے۔ ارشد شریف پر تشدد کا دعویٰ نجی ٹی وی کے میزبان کامران شاہد نے اپنے پروگرام میں کیا تھا۔ انہوں نے چند تصاویر بھی دکھائی تھیں جو ان کے بقول ارشد شریف کی لاش کی ہیں اور ان میں دکھا جا سکتا ہے کہ مقتول کے ایک ہاتھ کے چند ناخن غائب ہیں، انہیں قریب سے گولی ماری گئی۔ کامران شاہد نے دعویٰ کیا تھاکہ ارشد شریف کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

قتل سے قبل ارشد شریف کے ناخن نوچنے، پسلیاں توڑے جانے کا دعویٰ

یہ انکشاف ایک طرح سے اچانک تھا کیونکہ ارشد شریف کے قتل سے لے کر دو دن پہلے تک کسی نے تشدد کی بات نہیں کی تھی۔

اس معاملے میں مزید الجھاؤ اس وقت آیا جب بی بی سی اردو نے ارشد شریف کے اہلخانہ بالخصوص ان کی پہلی اہلیہ سمعیہ ارشد سے بات کی۔ جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے ان اہلخانہ کا دعویٰ تھا کہ انہیں جو دستاویزات دی گئیں ان میں سے چند صفحات غائب تھے اور ان صفحات کی نقول لفافے میں رکھی گئی تھیں۔

پاکستانی ماہرین کیا کہتے ہیں

ارشد شریف پر تشدد کے حوالے سے پاکستان میں معتبر ترین رائے پمز اسپتال میں ان کی میت کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کی رپورٹ اور پمز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود کے بیان میں سامنے آئی ہے۔ تاہم ان ماہرین نے قطعیت سے یہ نہیں کہا کہ ارشد شریف پر تشدد ہوا ہے۔

ڈاکٹر خالد مسعود نے نجی ٹی وی کے میزبان شاہ زیب خانزادہ کو بتایا کہ ارشد شریف کی دائیں کلائی پر تشدد کے نشانات ملے، سیدھے ہاتھ کی 4 انگلیوں کے ناخن نہیں تھے، بائیں ہاتھ کی انگلی پر بھی زخم کا نشان ملا، اس طرح 12 مختلف جگہوں پر زخم کے نشانات ملے، اس حوالے سے فارنزک ہو رہا ہے جس کی رپورٹ میں سامنے آئے گی تو پتا چل سکے گا کہ کتنا تشدد ہوا، ہوا بھی یا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہاکہ ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تصاویر درست ہیں اور یہ تصاویر ہسپتال سے ہی لیک ہوئی ہیں، جن کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔

کینیائی میڈیا کے دعوے

کینیا کے ایک صحافی برائن اوبویا اس حوالے سے ٹوئٹر پر سرگرم ہیں۔ برائن نے اس سوال اٹھایا کہ پاکستانی میڈیا نے یہ کیسے تعین کر لیا کہ ارشد شریف پر تین گھنٹے تشدد ہوا ہے، کوئی ڈاکٹر یا پوسٹ مارٹم معائنہ یہ نہیں بتا سکتا کہ مقتول پر اتنے دورانیے تک تشدد ہوتا رہا۔

تاہم برائن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ارشد شریف کے ناخن کے ٹکڑے پوسٹ مارٹم کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نکالے گئے تھے اور یہ بات کینیا میں کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں درج ہے۔

برائن کے اس دعوے پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ڈی این اے کے لیے ناخن نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔ ڈی این اے تو خون کے نمونوں اور اور بالوں سے بھی جانچا جا سکتا ہے۔

برائن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ”ڈس انفارمیشن اور سنسنی خیزی“ پر مبنی خبریں نشر کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں تحقیقات متاثر ہوں گی۔

اسی طرح کی بات کینیا کے اخبار نیشن نے بھی کی ہے۔

اخبار نے ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی دونوں رپورٹیں نیروبی کے پتھالوجسٹ ڈاکٹر احمد کلیبی کو دکھائیں۔ یاد رہے کہ ارشد شریف کا ایک پوسٹ مارٹم کینیا میں ہوا تھا اور دوسرا پاکستان میں۔

اخبار کے مطابق ڈاکٹر کلیبی نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ایک سادہ بات یہ لکھی ہے ارشد شریف گولی لکھنے کے بعد 10 سے 30 منٹ کے اندر جاں بحق ہوئے۔

ڈاکٹر کلیبی کا کہنا تھا کہ کینیا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس دورانیے کا اندازہ لگانے کے پیچھے کیا منطق ہے تاہم رپورٹ صرف دماغ اور سینے کے بنیادی زخموں کی بنیاد پر بنائی گئی ہے اور اس میں مزید تفصیلی معائنہ شامل نہیں۔

نیشن کے مطابق ڈاکٹر کلیبی کا کہنا تھا کہ کینیا اور پاکستان دونوں جگہ ہونے والے پوسٹ مارٹم معائنوں کی رپورٹوں سے یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ارشد شریف پر تشدد کیا گیا تھا۔

Read Comments