لاہور: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کی نقل لیک ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پیر کی شام مقدمہ درج ہونے کے بعد ایف آئی آر سیل کر دی گئی تھی تاہم اس کی نقل لیک ہو گئی اور پی ٹی آئی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تھانہ سٹی وزیر آباد کے سب انسپیکٹر عامر شہزاد کی مدعیت میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 سمیت دفعہ 302، 324 اور 440 کے تحت درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مقدمہ ملزم نوید کے خلاف قتل، اقدام قتل اور دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا، ملزم نوید کی فائرنگ سے معظم جاں بحق جب کہ عمران خان سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج، ایف آئی آر سیل
ایف آئی آر میں عمران خان کے نامزد کردہ تین افراد میں سے کسی ایک کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کو سیل کر دیا گیا ہے، ایف آئی آر کو کل سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ایف آئی آر کو عام ہونا تھا تاہم ایف آئی آر مقدمہ درج ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی لیک ہوگئی ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے لیک ایف آئی آر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی آر کے نام پر وہ مذاق ہے جو اس قوم کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان اشخاص کے نام ہی نہیں جن پر مدعی کو شک ہے، چئیرمین کی جانب سے ایف آئی آر زبیر نیازی نے جمع کروانی تھی لیکن یہ پولیس اہلکار کی مدعیت میں درج کی گئی۔
اس سے قبل مقدمہ درج ہونے پر پی ٹی آئی رہنما بشمول فواد چوہدری اور مسرت چیمہ اس ایف آئی آر کو کاغذ کا تُکڑا قرار دے چکے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ تین افراد کے خلاف درج کیا جائے۔ یہ افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اہم پوزیشن پر فائز ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔
پنجاب حکومت اور پولیس کو شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر اعتراض نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ سینئر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں شامل نہ کیا جائے۔
تھانہ وزیرآباد کی پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ اگروہ تیسرا نام نکال دیں تو فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی جائے گی۔ تاہم پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔