کینیا میں پولیس کے نگران ادارے ”انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی“ (آئی پی او اے) کی کمشنر پراکسیڈس ٹروری کا کہنا ہے کہ ابتدئی طور پر انہیں شبہ تھا کہ ارشد شریف کی گاڑی پر پولیس ناکے پر نہ رکنے کی وجہ سے گولی چلائی گئی، تاہم اب اس میں کچھ شبہات پائے جاتے ہیں۔
ارشد شریف پر فائرنگ کے بعد کینیائی پولیس نے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ مگادی کے قریب پولیس نے ایک گاڑی کی چوری اور اس میں موجود بچے کے اغوا کی اطلاع پر ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے اسے اس ناکہ بندی پر روکا گیا تھا لیکن ان کی گاڑی نہیں رکی اور اسی وجہ سے پولیس نے اس پر فائرنگ کردی تھی۔
کمشنر ٹروری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کے مقتول سینئیر صحافی ارشد شریف کی گاڑی کو ناکے پر روکنے والی بات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ گاڑی کو ناکے پر روکنے کو وجوہات پر شکوک پائے جاتے ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد سامنے آنے والے متضاد بیانات اور حالات و واقعات نے کینیایئی پولیس کے کردار کو مشکوک بنا دیا تھا، جس کے بعد قتل کی تحقیقات کینیا کے انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) کو سونپی گئیں جو 2012 میں پولیس پر سویلینز کی نگرانی کے لیے قائم کی گئی تھی۔
جس کی کمشنر ٹروری کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ”گاڑی کی تلاش کے لیے جو نمبر پلیٹ پولیس کو دی گئی تھی وہ ارشد شریف کی گاڑی کے نمبر سے مختلف تھی۔ یقینی طور پر یہ دو الگ الگ گاڑیاں ہیں۔“
ٹروری نے کہا کہ ”اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ پولیس افسران نے اس گاڑی پر گولی کیوں چلائی؟ یا اسے روکنے کی کوشش کیوں کی؟“
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر پولیس کے پاس سڑک پر لگانے کے بیریئرز ہوتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں سڑک پر پتھر رکھے گئے تھے، ہمیں معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا۔
چوری شدہ گاڑی کے نمبر اور ماڈل الگ ہونے کے باوجود ارشد شریف کی گاڑی کو روکنے کے سوال پر ٹروری نے کہا کہ ان کے ذہن میں بھی یہ بات آئی تھی کہ نہ رکنے کی وجہ سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی، ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کینیا میں پولیس نے ایسی گاڑی پر فائرنگ کی ہو جو ناکے پر نہیں رکی۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ مگادی ہائی وے کے قریب جس مقام پر پولیس کی گولیوں سے ارشد شریف کی ہلاکت ہوئی وہاں قریب ہی پیرا ملٹری فورس جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کی موجودگی کئی سوالات اٹھاتی ہے۔
یہ یونٹ عام طور پر سنگین جرائم کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے اور ماضی میں اس پر کارروائیوں کے دوران حدود سے تجاوز کے الزامات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
ارشد شریف کی ہلاکت کے دن گاڑی کی چوری اور اغوا کی واردات کو روکنے کے لیے یہ اسپیشل یونٹ ہی وہاں کیوں موجود تھا؟
کمشنر نے اس بارے میں کہا کہ ”ایسا نہیں تھا کہ اس یونٹ کو اغوا کے کیس کی تحقیقات کے لیے یہاں بھیجا گیا تھا۔ بلکہ یہ وہیں قریب موجود تھی۔“
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جی ایس یو بھی جرائم کا مقابلہ کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد یہ بات ہمارے سامنے آئی ہے کہ ارشد شریف ایک غیر ملکی صحافی تھے اور انہیں اپنے ملک (پاکستان) میں مسائل کا سامنا تھا لیکن ہم اس سے پہلے ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان سے بھی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم کینیا کا دورہ کرکے تحقیقات کر چکی ہے۔