مچھر کالونی کا رُخ کرنے والے نجی ٹیلی کام کمپنی کے انجینئر ایمن جاوید اور ان کے ڈرائیور اسحاق پنھور کو کیا معلوم تھا کہ ایک ”بلیک اسپاٹ“ کی تلاش تنگ گلی میں انہیں ان کی ناگہانی موت تک پہنچا دے گی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ جہاں وہ جارہے ہیں وہاں ایک ہجوم انہیں بچے اغوا کرنے والا کہہ کر موت کے گھاٹ اتارنے والا ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن کی دنیا میں ”بلیک اسپاٹ“ ایسا علاقہ ہے جہاں کوئی سیلولر کوریج نہیں ہوتی۔ جاوید اور پنھور نیٹ کام نامی ایک مینٹیننس کمپنی کے لیے کام کرتے تھے، جو بڑی ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس دن یعنی 28 اکتوبر کو دونوں افراد کو مچھر کالونی کے ایک حصے میں ایک بلیک اسپاٹ تلاش کرنے کا کام سونپا گیا، جہاں سے سگنل نہ ملنے کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مچھر کالونی کی جنگل گلی اور دو لاشیں
یہ بھی پڑھیں: مچھرکالونی قتل کیس: پیش امام کا کردار مثبت تھا، آئی جی
یہ بھی پڑھیں: ٹیلی کام کمپنی ملازمین کا قتل: مشتعل افراد پائیوڈین کو بیہوشی کی دوا سمجھے
انہوں نے مذکورہ علاقے کا دورہ کیا، اور اس کیلئے کمپنی کی ایک سفید کار استعمال کی، لیکن اس پر کمپنی کا کوئی لوگو نہیں تھا۔ کار پر اسلام آباد کی نمبر پلیٹیں تھیں کیونکہ نیٹ کام کا صدر دفتر دارالحکومت میں ہے۔
سینئیر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کیماڑی، فدا حسین جانوری نے آج نیوز کو بتایا، ”وہ بلیک اسپٹ کی تلاش میں تنگ گلی میں مسلسل آگے پیچھے ہورہے تھے، انہوں نے اسکول کے دو بچوں سے ممکنہ طور پر باہر نکلنے کا راستہ پوچھا، جس نے انہیں مقامی لوگوں کی نظروں میں مشکوک بنا دیا۔“
ایس ایس پی نے مزید کہا کہ ”ایک فرسٹ ایڈ کِٹ باکس میں موجود قینچی، روئی اور پایوڈائن نے لوگوں کے اس شبہ کو تصدیق میں بدل دیا یہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے کے لیے تلاش کر رہے تھے۔“
پولیس چیف غلام نبی میمن نے چند روز قبل سندھ کابینہ کے سامنے فرسٹ ایڈ کٹ کے بارے میں ایسا ہی بیان دیا تھا۔
قریبی مسجد و مدرسہ کے پیش امام محمد طاہر صبح 10 بج کر 15 منٹ پر سو رہےتھے کہ ان کے ایک طالب علم نے انہیں یہ کہہ کر جگایا کہ وہ گلی میں شورشرابہ ہورہا ہے۔
مقتول انجینئیر ایمن جاوید کا دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ٹیلی کمیونیکیشن کے بلیک اسپاٹس تلاش کرنا، ان کی نشاندہی کرنا اور دفتر میں رپورٹ کرنا روز مرہ کا کام تھا، تاکہ دوسری ٹیمیں انہیں ٹھیک کرسکیں۔
بعض اوقات مردوں کو ٹھیک جگہ کی نشاندہی کیلئے ایک ہی گلی میں نصف درجن بار آگے پیچھے گھومنا پڑتا ہے۔
قریبی مسجد اور مدرسے کے پیش امام محمد طاہر صبح 10:15 کے قریب سو رہے تھے کہ ان کے ایک طالب علم نے انہیں یہ کہہ کر جگایا کہ گلی میں ہنگامہ ہورہا ہے۔
انہوں نے آج نیوز کو فون پر بتایا، ”میں پہلے مردوں ( ایمن اور اسحاق) پر تھوڑا غصہ تھا کیونکہ ان کے پاس کمپنی کی مناسب شناخت نہیں تھی۔ میں نے ایمن کے فون پر ان کے دفتر میں واصف نامی کسی شخص سے بات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی ٹیم کو نکالنے کے لیے ڈاکس پولیس اسٹیشن کو کال کریں کیونکہ ہجوم بڑا ہوتا جا رہا ہے۔“
پولیس کے مطابق، دفتر نے دوسری ٹیم کو بلایا جو قریب ہی کے کھیت میں کام کر رہی تھی۔
پیش امام نے کہا، ’’میں نے ان دونوں آدمیوں کو اندر آنے کی پیشکش کی تھی۔
پیش امام، جسے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر لنچنگ پر اکسانے کے الزام میںبدنام کیا گیا تھا، نے درحقیقت ان دونوں افراد کی مدد کرنے کی پوری کوششکی تھی۔
امام مسجد کو امید کی تھی کہ وہ مقامی لوگوں سے بات کرکے معاملہ حل کرنے کی کوشش کریں گے ، لیکن ایمن اور ڈرائیور اپنی کمپنی کی گاڑی کو باہر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔
جب دونوں افراد نے اپنی گاڑی کو گلی سے باہر نکالنے کی کوشش کی تو انہیں تقریباً 200 سے 250 آدمیوں کے ہجوم نے روک لیا۔
پڑوس میں کام کرنے والی پولیو ٹیم کے ساتھ تعینات دو پولیس اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور ہوائی فائرنگ کرکے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی اور مشتعل لوگوں نے حملہ کر کے ایک پولیس اہلکار کو زخمی کر دیا۔ دوسرے پولیس اہلکار نے ڈاکس تھانے کے ایس ایچ او کو فون کیا جو موقع پر پہنچے لیکن جب تک کمک پہنچی بہت دیر ہوچکی تھی۔
پولیس نے کہا ہے کہ پیش امام، جسے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر لنچنگ پر اکسانے کے الزام میں بدنام کیا گیا تھا، نے درحقیقت ان دو افراد کی مدد کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔
مپیش امام حمد طاہر کو ابتدائی طور پر پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا لیکن بعد میں کمپنی کے اہلکار کی جانب سے ان کے بیان کی تصدیق کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
پولیس نے اب تک 18 مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور مزید مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں۔
آج نیوز نے تبصرہ کے لیے نیٹ کام کے جنرل مینیجر سے رابطہ کرنے کی کئی ناکام کوششیں کیں۔
ایس ایس پی جانوری نے کمپنی کے اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسی کمپنی کے عملے کو چند ماہ قبل کورنگی میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ایک دوسری ٹیم جو قریب ہی کام کر رہی تھی موقع پر پہنچی اور ایک بڑے حادثہ رونما ہونے سے بچ گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ کمپنی نے کورنگی واقعہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بغیر نشان والی گاڑیوں میں عملے کو شورش زدہ محلوں میں بھیجتی رہی۔
مصنف ایک تحقیقاتی رپورٹر ہیں۔