پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا الزام وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک سینئر فوجی افسر پر عائد کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یہ تینوں افراد مستعفی ہوں جس کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کی جائے۔
عمران خان نے پہلی مرتبہ شہباز شریف پر 800 افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرانے کا الزام عائد کیا۔ تاہم سینئر فوجی افسر پر ان کا حملہ نیا نہیں تھا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران وہ کئی مرتبہ انہی افسر کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
شروع میں عمران خان نے ان افسر کو ”ڈرٹی ہیری“ کہہ کر پکارا اور بعد میں ان کا نام رینک کے ساتھ لیا اور یہ بھی بتاتے رہے کہ مذکورہ افسر اس وقت کیا ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جمعرات کو جاری ایک حکم نامے کے ذریعے مذکورہ افسر کا نام نشر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تاہم سوشل میڈیا پر ان کا نام زیربحث ہے۔ حتی کہ ان کی حمایت میں سامنے آنے والی شخصیات بھی ان کا نام عہدے سمیت لے رہی ہیں۔
بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے جمعہ کی شب متعدد ٹوئیٹس میں بتایا کہ ان افسر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ مذکورہ افسر کے پس منظر کی مزید تفصیلات دیگر ذرائع سے موصول ہوئی ہیں۔
سرفراز بگٹی نے لکھا کہ شاید ان کی بات بہت سے لوگوں کو بری لگے لیکن میجر جنرل فیصل نصیر کے حوالے سے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا اور بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
فیصل نصیر کی صرف تین ماہ قبل بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے رینک پر ترقی ہوئی تھی اور انہیں آئی ایس آئی کا ڈی جی سی لگایا گیا تھا جو ایجنسی میں آئی ایس آئی چیف کے بعد اہم ترین پوزیشن سمجھی جاتی ہے۔ ماضی میں اس پوزیشن پر جنرل فیض حمید اور جنرل ظہیرالاسلام رہ چکے ہیں۔
فیصل نصیر نے 1992 میں فوج میں کمیشن لیا تھا اور وہ کور آف ملٹری انٹیلی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے پورے کیرئیر کے دوران انہوں نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنائے۔ ان کا کام کاؤنٹر انٹیلی جنس تھا۔ وہ کراچی، سابقہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں تعینات رہ چکے ہیں۔
سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ جب وہ بلوچستان کے وزیر داخلہ تھے تو انہیں ذاتی طور پر فیصل نصیر کے کام سے آگاہی ہوئی۔ سرفراز بگٹی کے مطابق فیصل نصیر کے ”شاندار اور پیشہ وارانہ کام کی وجہ سے ان کا نک نیم سپر سپائی پڑ گیا تھا۔“
میجر جنرل فیصل نصیر کو ہلال امیتاز ملٹری مل چکا ہے۔ یہ اعزاز اس فوجی افسر کو دیاجاتا ہے جس نے ملک کے تحفظ اور قومی مفادات کے لیے بھرپور خدمات انجام دی ہوں۔
پاکستان آرمی میں اس وقت لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پرموجود تمام افسر یہ اعزاز پا چکے ہیں۔ تاہم تمام موجودہ تمام میجرجنرلز ہلال امیتاز کے حامل نہیں۔
اطلاعات کے مطابق حالیہ ترقی سے قبل ان کی رپورٹ اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے تحریر کی تھی جنہوں نے لکھا کہ فیصل سرفراز ایک ایسے افسر ہیں جو بغیر کسی ڈر اور لالچ کے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
سرفراز بگٹی نے بھی اپنی ٹوئیٹس میں فیصل نصیر کو Decorated officer کہا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پہلے اعظم سواتی اور پھر عمران خان نے ان پر الزامات عائد کیے ہیں۔
میجر جنرل فیصل نصیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ موجودہ پوزیشن سنبھالنے سے پہلے وہ کراچی میں تعینات تھے اور آئی ایس آئی کے بجائے ملٹری انٹیلی جنس میں تھے۔
ان کی بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی کا اعلان 26 جولائی کو ہوا۔ مجموعی طور پر 32 بریگیڈیئرز کو ترقی دی گئی تھی۔
عمران خان حالیہ الزامات سے پہلے جنرل فیصل نصیر کو پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنوں پر کریک ڈاؤن کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم یہ محض اتفاق ہے کہ فیصل نصیر کی نئی تعیناتی کے ساتھ ہی بلوچستان میں ہیلی کاپٹر کے حادثے کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد شہدا کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم چلائی گئی۔
اس مہم کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی شوشل میڈیا ٹیم پر آئی اور شہدا کی توہین کرنے والوں کے خلاف کاررروائی کا آغاز ہوا۔ گوکہ بیشتر سوشل میڈیا کارکنوں کو غلطی کے اعتراف کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس پر ماضی میں گرفتاریوں کا سامنا کرنے والی جماعتوں بعض دوسری جماعتوں کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے مقابلے میں یہ ایک بہت ہی نرم ردعمل تھا۔
لیکن سوشل میڈیا پر ٹاک شو کرنے والے دو صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ میجر جنرل فیصل نصیر کے حوالے سے عمران خان کے بیانات کا سبب ان کی کوئی ذاتی مخاصمت نہیں بلکہ اس کا تعلق ایجنیسوں کی آپسی رقابت سے ہے۔ تاہم مذکورہ صحافی اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی رقابت ایجنسیوں کے کام کا حصہ ہے۔