پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان پر حملے کے بعد حساس اداروں کی جانب سے آزادی مارچ کے کنٹینر کو سیل کردیا ساتھ ہی جائے وقوعہ سے 11خول بھی ملے ہیں۔
آج نیوز کے نمائندے کے مطابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کل ہونے والے واقعے کے بعد کہا تھا کہ مارچ وزیرآباد سے دوبارہ شروع کیا جائے گا جس کے بعد آج کارکنان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ مارچ کی بحالی سے متعلق کئی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ گذشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس اور حساس اداروں نے جائے وقوعہ کو مکمل طور پر سیل کردیا ہے۔
وزیرآباد پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے تمام شواہد اکٹھے کر لئے گئے ہیں اور گولیوں کے 11 خول ملے ہیں، جس میں سے 9 خول پستول اور 2 بڑی گن کے ہیں۔
پولیس نے بتایا ہے کہ پستول سے زیادہ فائر ہوئے ہیں، بڑی گن سے کم فائر کیے گئے ہیں، جس میں کل 13 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
وزیر آباد میں عمران خان پر فائرنگ کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، کیس کی تفتیش سی ٹی ڈی کے سپرد کردی گئی۔
پی ٹی آئی کے حقیقی آزادی مارچ میں فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، تحقیقاتی ادارے آج بھی جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حقیقی آزادی مارچ میں فائرنگ کیس کی تفتیش کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کے سپرد کردی گئی ہے۔
جائے وقوعہ سے حراست میں لئے گئے مرکزی ملزم نوید کو تفتیش کے لئے لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ملزم نوید کو چوہنگ میں قائم سی ٹی ڈی کے سیل میں پہنچایا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم نوید سے سی ٹی ڈی سمیت اہم اداروں نے پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے غیر ملکی میڈیا کو شوکت خانم اسپتال بلا لیا۔
عمران خان وزیر آباد واقعے کے بارے میں گفتگو کریں گے، غیر ملکی میڈیا کے نمائندے شوکت خانم اسپتال پہنچ گئے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان مقامی میڈیا سے بھی گفتگو کریں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔
پولیس نے ملزم نوید کو اسلحہ فراہم کرنے والے دو ملزمان کو گرفتارکرلیا۔
پولیس کے مطابق وقاص اور ساجد بٹ نامی ملزمان نے فائرنگ کرنےوالے ملزم نوید کوپستول فراہم کیا۔
دونوں ملزمان کو پہلے سے گرفتار ملزم نوید کی نشاندہی پر وزیرآباد سے گرفتارکیا گیا ۔
ملزم کے اعترافی بیانات کی ویڈیوز سامنے آنا عجلت یا سنگین غلطی، کیس کی تحقیقات پر کیا اثر پڑے گا، سوالات اٹھنے لگے۔
پنجاب پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل سرمد سعید نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ہائی پروفائل کیسز میں ملزم کے اعترافی بیانات لیک ہونا کیس کو خراب کرنے کے مترادف ہے، اس کی قانونی حیثیت نہیں۔
مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے اعترافی بیان کی قانونی اہمیت ہوتی ہے اور یہ اس وقت ریکارڈ کیا جاتا ہے جب ملزم کو پولیس تفتیش کے بعد مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا سنگین نوعیت کے مقدمات میں تو میڈیا میں ملزم کی شناخت بھی ظاہر نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے شناخت پریڈ کے عمل پر اثر پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے،عدالت میں شواہد بھی کمزور ہوتے ہیں۔
قانونی ماہر احسن بھون نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ اعترافی بیان کے ویڈیوز کی اہمیت فرانزک کے بعد ہوتی ہے، ملزم کا اپنے بیان کو عدالت کے سامنے تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔
احسن بھون سے اعترافی بیانات عجلت میں جاری کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسے اہم مقدمات میں پولیس کو سیاسی اور غیر ضروری مداخلتکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سے ان کی تحقیقات متاثر ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دباؤ کی وجہ سے پولیس کی جانب سے اعترافی بیانات جاری کردیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے گزشتہ روز اپنی ٹوئٹ میں واضح کیا تھا کہ آج پارٹی کی سینئر لیڈرشپ کا اجلاس لاہور میں طلب کیا ہے۔ اب اجلاس کے بعد ہی واضح ہوسکے گا مارچ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگا یا نہیں۔
گزشتہ روز وزیرآباد سے گزرتے ہوئے اللہ ہو چوک کے مقام پر پی ٹی آئی حقیقی آزادی مارچ کے کنٹینر پر فائرنگ کے نتیجے میں عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت 13 افراد زخمی ہوگئے جبکہ معظم نامی ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔