پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان کا کہنا ہے کہ ان کے سکیورٹی گارڈ کو شک کی بنا پر غلطی سے گرفتار کیا گیا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے عالمگیر خان نے کہا کہ “ آج جیسے ہی ہم وزیر آباد پہنچے اور لانگ مارچ کو جوائن ہی کر رہے تھے کہ چار پانچ منٹ پہلے یہ واقعہ ہوچکا تھا۔“
انہوں نے بتایا کہ ”وہاں پر بھگدڑ مچی ہوئی تھی لوگ ہماری طرف بھاگتے ہوئے آرہے تھے، ہم نے پوچھا تو بتایا کہ وہاں فائرنگ ہوئی ہے، ہم آگے بڑھے راستہ کلئیر کرنے کیلئے ایسے میں خان صاحب کو گاڑی میں موو کیا گیا۔ میرے ساتھ پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی کا گارڈ ہیں، جب وہاں سچویشن کرئیٹ ہوئی تو وہ سیکیورٹی کیلئے میرے ساتھ آگے آگئے۔“
عالمگیر خان نے کہا کہ ”میں آگے تھا روڈ کلئیر کر رہا تھا تو وہ کچھ پیچھے رہ گئے، بھگڈر کے دوران پولیس شک و شبہات کی بنا پر گرفتار کر رہی تھی، تو یہ سب ایک غلط فہمی کے باعث ہوا، ابھی تک گارڈ کو نہیں چھوڑا گیا۔“
اس سے قبل ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ اس (گارڈ) کا نام بھی اس واقعہ میں ذمہ دار ہے جو کہ غلط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ یا کوئی بھی اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے کہ کسی بھی نہتے یا عام لوگوں پر اس کا نام ڈال رہا ہے تو یہ غلط ہے۔
آج نیوز اسلام آباد کے بیورو چیف سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ نشانہ عمران خان کو ہی بنایا گیا تھا۔
سلیم شیخ نے کہا کہ فائرنگ برسٹ کی شکل میں ہوئی جسے پنجابی میں ”چھٹہ“ مارنا کہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ڈی ایس این جی کی چھت پر تھے کہ اچانک فائرنگ ہوئی اور ہم سب نیچے بیٹھ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کرنے والے نے عمران خان کو نشانہ بنایا تھا۔
سیکیورٹی کے سوال پر سلیم شیخ نے کہا کہ لاہور سے چلے ہیں تو ایس او پی یہی رہی ہے کہ عمران خان کے کنٹینر کے آگے کارکنان اور ان کے اپنے سیکیورٹی گارڈ ہوتے ہیں، پھر پیدل پولیس ہوتی ہے اور ان کے آگے ڈالے میں پولیس اہلکار چلتے ہیں، پولیس کی بڑی تعداد عمارتوں پر موجود ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور سے جب قافلہ چلا تو عمران خان رات میں بھی خطاب کرتے تھے، لیکن پھر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان سورج غروب ہونے پر کنٹینر سے نیچے آجاتے تھے۔
قافلے میں اسلحہ بردار کی موجودگی کے سوال پر سلیم شیخ نے کہا کہ عمران خان اور بلاول کے مارچ میں فرق تھا، بلاول کا قافلہ گاڑیوں کی صورت میں چلتا تھا جبکہ عمران خان کے قافلے کا استقبال مقامی لوگ کرتے ہیں جو قافلے کے دونوں جانب موجود ہوتے ہیں تو ایسے میں پولیس کیلئے معاملات سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔
وفاقی وزیر خرم دستگیر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اصل حقیقت ہے کہ پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ عمران خان کی ہے، پنجاب کے وزیر داخلہ بھی پی ٹی آئی سے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب حکومت کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم وزیراعلیٰ پنجاب نے کوئی تحقیقات یا تفتیش کی کمیٹی نہیں بنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں حکومت ان کی ہے، الزام ہم پر لگا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں تشدد نہیں ہونا چاہیے، پی ٹی آئی نے بغیر تحقیق کے وزیراعظم، وزیرداخلہ پر الزامات لگانے شروع کردیے۔