بیوہ مائی ہاجرہ چھ بچوں کی ماں اور ایک کسان ہے جس نے پوری زندگی زمیندار کے ہاں زرعی زمینوں کی کاشتکاری کی ہے۔ ہاجرہ مائی کے مطابق کاشتکاری کرتے اس کے بال سفید ہوگئے۔
مائی ہاجرہ نے بتایا کہ میرا شوہر بھی کسان تھا جو کھانسی کی بیماری کے ساتھ لڑتے ہوئے آخر کار دم توڑ گیا اور مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔
ہاجرہ نے ساری زندگی گندم، چاولوں کی کاشت کی ہے، زمیندار نے انہیں زرعی زمین کی پانچ ایکڑ اراضی ٹھیکے پر دی ہوئی ہے، جس کو ہر چھ ماہ کے دوران پیدوار میں حصہ دیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زرعی پیدوار میں خرچہ میں کرتی ہوں، کھاد سود پر لیتی ہوں جس کے فصل کی پیدوار تک ڈبل پیسے دینے پڑتے ہیں، ہرچھ ماہ بعد گندم کی پیدوار ہو، مگر گھر میں کھانے کے لئے آٹا مارکیٹ سے لے کر کھاتے ہیں کیوں کہ ہماری پیدواری فصلیں سود اور زمیندار کو اخراجات پورے کرنے میں ختم ہوجاتی ہیں۔
مائی ہاجرہ نے بتایا کہ ساری زندگی کاشت کا کام کرنے سے جھوپڑی نما گھر ہے، پکا مکان تک نہ بنا سکی ہوں ، ایک مرتبہ میں حاملہ تھی ساتواں ماہ چل رہا تھا ادھر گندم کی کٹائی کرنے کا وقت ہوگیا، زمیندار نے سختی سے کہا کہ گندم کی کٹائی کرکے گندم مجھے پہنچا دو، میرے شوہر نے کسان خواتین سے گندم کی کٹائی کے لئے مدد مانگی، سخت گرمی میں فصلوں کی کٹائی کا کام کرنے لگی تو اچانک میرا سر گھوما اور میں بے ہوش ہوگئی، میرا خون بہنے لگا۔ اس طرح دیہاتی خواتین نے میری مدد کرکے مجھے گھر پہنچایا جہاں پر میرا ساتویں ماہ کا بچہ ضائع ہوگیا۔ تب شوہر کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جو مجھے کسی نرس کے پاس لے جاتا، وہ خود قرض میں ڈوبا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہمیں زرعی پیدواری آلات اور قرضوں کی سیولیات فراہم کریں تب جاکر ہم کسان خواتین مضبوط ہو کر کاشتکاری کے کام میں کامیاب ہوں گی۔
پچھتر سالہ خاتون سوڈی کسان ہے اور خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔
خاتوں سوڈی نے بتایا کہ میری زندگی کسان کے کام کرنے میں گزری ہے، مجھے گندم نصیب ہوتی ہے، جس سے بچوں کا گزارا ممکن ہوتا ہے، میری تیسری پیڑھی ہوچکی ہے کسان کا کام کرتے ہوئے، میں بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کاشتکاری کا کام کر رہی ہوں، مجھے فخر ہے اور مزا آتا ہے۔ کھیتوں میں پانی دینا، مونجی کی فصلوں کی چنائی کرنا، نہ مجھے گرمی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی سردی۔ گرمی کی موسم میں مونجی کی فصلوں کی چنائی کرتی ہوں اور جب سردی ہوتی ہے تو گندم کی اگائی کرنا پڑتی ہے، ذمیندار سے دو ایکڑ زرعی فصل آدھے حصے میں ٹھیکے پر لی ہوئی ہے، اتنے میں میرے گھر کا اناج نکل آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے پانچ بیٹے ہیں، جن میں دو بیٹوں کو میٹرک تک پڑھایا ایک پیون ہے دوسرا مالی، دونوں نوکریاں ملنے کے بعد اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خوشحال ہیں، مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے بیٹے نوکریوں میں ہے، باقی تین بیٹے میرے ساتھ ہیں جو کسان ہیں اور کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔
سوڈی نے کہا کہ گھر میں جو میرا حکم چلتا ہے اس پر ہی عمل کیا جاتا ہے کیوں کہ میں اپنی اولاد کی محتاج نہیں ہوں، گندم اور چاول کی فصل کی پیداوار کی وجہ سے میری گھر میں عزت ہے، ہاں جن بیٹوں کو نوکریاں دلوائیں وہ اپنے بچوں کی پروش میں مگن ہیں، جو بیٹے میرے ساتھ ہیں وہ اٹھتے بیٹھتے مجھ سے مشورہ لیتے ہیں، تب مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
سوڈی کی عمر 75 سال ہے مگر کسان کے کام میں ماہر مانی جاتی ہیں، ان کی فصلیں ہر سال خوشحالی لاتی ہیں، بارشوں میں بھی فصلیں آباد رہی ہے، وہ پانچ وقت پابندی سے نماز ادا کرتی ہیں اور ایمانداری کے ساتھ کھیتوں کی نگرانی خود کرتی ہیں۔ جس سے برکت اور رحمت ان کے نصیب میں ہے۔
ذمیندار عثمان ٹانوری کے مطابق کھیتی باڑی کرنے والے کبھی امیر نہیں بن سکتے، عثمان نے بتایا کہ کسان عورتیں محنت کش ہیں، مردوں کی نسبت زیادہ محنت عورتیں کرتی ہیں، جن کی بدولت ہماری دولت میں اضافہ ہوتا ہے، مرد سارا دن ہوٹلوں پر چائے کے بہانے وقت ضائع کرتے ہیں، جبکہ دیہاتی کسان عورتیں اپنے کام سے لگن اور سچائی کرتی ہیں جن کو ہم زمین ٹھیکے پر دیتے ہیں، مگر ان عورتوں کے مرد جو انہیں نہ چپل نہ کپڑے اور نہ ہی گھر کا حق ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں اکثر دیہاتی کسان خواتین کی وجہ سے کھیتی باڑی اور زراعت کی پیدوار میں اضافہ ہو رہا ہے، خواتیں کو سہولیات دینا ریاست کا کام ہے۔ کیوں کہ ہم انہیں کھیتی باڑی کرنے کے لیے اپنی زمین دیتے ہیں، پانی کا ذمہ ہمارا ہوتا ہے، اس کے علاوہ کھاد بیج وغیرہ کے اخراجات نہ ہونے کی صورت میں ہم برداشت کرتے ہیں اور زبانی کلامی ایگریمنٹ کے تحت آمدن میں آدھا حصہ ہمارا ہوتا ہے۔ جسے کسان بخوشی خود تسلیم کرکے ہمیں دیتے ہیں۔
کشمور سندھ پاکستان کا ایک ضلع ہے، یہاں مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس ضلع میں 75 فیصد آبادی کا تعلق دیہاتوں میں آباد ہے، جب کہ 25 فیصد آباد کا تعلق شہری علاقوں سے ہے۔ اس ضلع کی شرح خواندگی میں مردوں کی بات کی جائے تو 42 فیصد ہے، جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 19 فیصد تک ہے، یہاں پر 97 فیصد آبادی مسلمان ہے جب کہ باقی آبادی اقلیتی برادری پر مشتمل ہے، جن میں زیادہ تر ہندو ہیں۔
ضلع کشمور تین تحصیلوں پر مشتمل ہے۔
محکمہ ایگریکلچرل اسسٹنٹ ڈائریکٹر ممتاز اعوان کے مطابق آبادی کا 1944 مربع کلو میٹر کا حصہ زرعی زمینوں پر مشتمل ہے ، یہاں کسان میں مردوں کی نسبت خواتین کی شرح 65 فیصد ہے، جبکہ 35 فیصد مرد ہیں جو کاشتکاری کا کام کرتے ہیں، یہاں پر زیادہ تر گندم اور چاولوں کی فصلیں کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ایشیاء کی دوسری نمبر پر مانی جانے والی اناج منڈی موجود ہے جو تحصیل کندھ کوٹ کے ساقی موڑ پر واقع ہے ۔
یہاں پر کسان خواتین کو زمین ، جدید زرعی پیدواری معلومات ، قرضوں اور جدید زرعی آلات تک رسائی جیسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ کسان خواتین کو مال مویشیوں سمیت زرعی زمین سے پیدواری سے حاصل ہونے والی آمدن پر بھی کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
گندم کی موسمی اگائی دو ماہ اکتوبر نومبر میں ہوتی ہے، جبکہ مونجی کی فصل کی چنائی جون جولائی میں چنائی کی جاتی ہے۔
گندم کی پیدوار فی ایکڑ پچاس من ہوتی ہے، جس کی آمدن ایک لاکھ 75 ہزار روپے جبکہ اخراجات میں زمینوں کو پانی دینے کے لِیے 9000 ہزار فی ایکڑ خرچہ ہوتا ہے۔
زرعی آلات استعمال کرنے کا خرچہ فی ایکڑ 1500 روپے، بیج خریدنے کے لئے فی ایکڑ اراضی میں 10000 ہزار روپے، کھاد فی ایکڑ فصل میں 20500 روپے، گندم کی کٹائی کے لئے فی ایکڑ کے حساب سے 2500 روپے، دوائی فی ایکڑ فصل میں 2000 ہزار روپے، گندم کو اناج منڈی لے جانے کا کرایہ فی ایکڑ فصل کے حساب سے 10000 روپے خرچہ ہوتا ہے۔
گندم کی اگائی سے لے کر کٹائی کا فی ایکڑ فصل پر کم سے کم خرچہ 60 ہزار ہوتا ہے جبکہ آمدن ایک لاکھ تک، جس کا آدھا حصہ ذمیندار کو دیا جاتا ہے جبکہ پچاس ہزار کسان کو ملتا ہے۔
مونجی فصل کی بات کی جائے تو جون جولائی کے مہینے میں چنائی کی جاتی ہے جبکہ کٹائی اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں کی جاتی ہے، پھر مونجی کو اناج منڈی فروخت کیا جاتا ہے۔
فی ایکڑ میں پیدوار ایک لاکھ 60 ہزار روپے ہوتی ہے، جس سے ایک لاکھ 20 ہزار آمدن کا آدھا حصہ ذمیندار کی جیب میں جاتا ہے جبکہ 60 ہزار کسان کو حاصل ہوتا ہے۔
اس طرح کسان روز مرہ غریب سے غریب ہوتا جارہا ہے جو خون پسینے سے فصلوں کی مشقت کا کام کرنے کے بعد انہیں فی ایکڑ گندم پر پچاس ہزار جبکہ چاولوں کی فصل کے فی ایکڑ 60 ہزار آمدن حاصل ہوتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر منور علی مٹھیانی نے کسان خواتین کے حوالے سے اپنے مؤقف میں کہا کہ سندھ واٹر منیجمنٹ (ترمیمی) بل 2018 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ صوبہ سندھ کی تقریباً 45 ہزار واٹر کورس ایسوسی ایشنز میں 350 سے زائد بورڈز میں خواتین کاشتکاروں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے، مگر یہاں دیہی علاقوں میں اس قانون پر عملدرآمد کرانے کے لیے خود کسان خواتین کو آگے آنا پڑے گا پھر جاکر ان کو اپنا حق مل سکے گا۔
12جنوری 2021ء کو سندھ اسمبلی نے ممبر صوبائی اسمبلی رانا انصر کے جانب سے پیش کی گئی ترامیم کو منظور کرلیا تھا۔
سیکشن 30 میں کی گئی ترمیم کے مطابق ایریا واٹر بورڈ (اے ڈبلیو بی) کمانڈ ایریا سے آب پاشی پر منحصر زراعت اور تقسیم آب کا پس منظر رکھنے والی دو خواتین انتظامی بورڈ کی ممبر ہوں گی ۔ یہاں ان خواتین کو اہمیت دی جائے گی۔
سیکشن 42 میں کی گئی ترمیم کے مطابق ایک کسان تنظیم میں دو خواتین جو آب پاشی پر منحصر زراعت اور تقسیم آب کا پس منظر رکھتی ہوں انہیں مقرر کیا جائے گا۔
سیکشن 56 کے شق نمبر ایک میں کی گئی ترمیم میں واٹر کورس ایسوسی ایشن (ڈبلیو سی اے) کے منتخب ممبران کے علاوہ دو خواتین بھی ڈبلیو سی اے بورڈ کا حصہ ہوں گی جہاں پر ہی ڈبلیو سی اے قائم کریں.
سیکشن 70 میں کی گئی ترمیم میں دو خواتین ممبران جن میں سے ایک کوئی نمایاں وکیل، حقوق نسواں کی کارکن، صحافی ہو اور ایک خاتوں کاشتکار میمبر ہوں گی جو کمزر و کسان خواتین کو پیدواری میں حصہ دلواسکی گی۔
ممبر سندھ بار کاؤنسل ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی کے مطابق واٹر منیجمنٹ بل 2018ء اور ترمیمی بل 2021 کو ریاستی ادارے متعرف کروائیں، دیہی علاقوں میں کانفرنس کرکے خواتین کو آگاہی دیں، خواتین کی ناخواندگی کے باعث منظور شدہ بل پر عملدرآمد ہونا مشکل ہے۔ اس بل میں خواتین کسان کو اپنا حق مل سکتا ہے مگر دیہی علاقوں میں قبائلی ریتی رواج کے مطابق خواتین کو بیج بونے سے فصل کی کٹائی تک ہر کام کرنا پڑنا ہے، مگر پیدوار میں مردوں کا حق چلتا ہے، یہاں تک کہ پانی کی تقسیم کے لیے ان سے رائے بھی نہیں لی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کسان کو مضبوط بننا ہوگا اور اپنی آواز کو بلند کرکے جرات کا مظاہرہ کریں تاکہ اس قانون پر عملدرآمد ہوسکے، مردوں کے سامنے ڈٹ کر ان کا سامنا کرنا ہوگا پھر قانون حرکت میں آئے گا۔ خواتین کسان کو حق حاصل ہوگا کہ فصلوں کی بوائی سے لے کٹائی تک انہیں کا حق ہوگا۔