سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہفتے تک تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 10 ہزار بندے بلا کر 2 لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
صدرسپریم کورٹ باراحسن بھون اور عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ بابراعوان اورفیصل چوہدری کی نمائندگی کررہا ہوں، بابراعوان اورفیصل چوہدری کونوٹس جاری کیےگئےتھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے نوٹس نہیں کیے تھے صرف جواب مانگے تھے، دونوں وکلاء کے جواب بظاہرمناسب ہیں، جوابات کا جائزہ بعد میں لیں گے ، پہلے حکومتی وکیل کا مؤقف سن لیتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے تفصیلی جواب کے لئے وقت مانگا ہے، انہوں نے کسی بھی یقین دہانی سے لاعلمی ظاہر کی ہے، عمران خان نے جواب میں عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیاہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، فیصل چوہدری کےمطابق ہدایت اسد عمرسے لی تھیں، فیصل چوہدری کے مطابق ان کا عمران خان سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا، بابراعوان کے مطابق عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 25 مئی کو پہلے اور دوسرے عدالتی احکامات میں کتنی دیر کا فرق ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلا حکم دن 11 بجے اور دوسرا شام 6 بجے دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کے لئے ہی تھا، عدالت کو نہیں بتایا گیا تھاکہ ہدایت کس سے لی گئی ہے، اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی توعدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا؟ اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔
جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ عدالت نے بابراعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا، دونوں وکلاء نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملی، عمران خان کوعدالتی حکم کا کیسے علم ہوا؟ یقین دہانی پی ٹی آئی اعلی قیادت کی جانب سے کرائی گی تھی، پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغازعمران خان سے ہوتا ہے، عمران خان نے تفصیلی جواب کا وقت مانگا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی، سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا، 2 مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں، عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کرچکی ہے۔
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ جلسے کے لئے مختص جگہ سے گزرکرعمران خان جناح ایونیو آئے، بلیو ایریا میں عمران خان نے تقریر صبح ساڑھے 7بجے کی۔
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن واقعات کا ذکر آپ نے کیا وہ عمران خان کے آنے سے پہلے کے ہیں۔
وکیل احسن بھون نےاپنے دلائل میں کہا کہ فیصل چوہدری نے عدالتی ہدایت پر بابر اعوان سے رابطہ کیا تھا، وکلا ءنے کہا تھا اٹک عمران خان کے پاس جانا ممکن نہیں، عدالت نے حکومت کو وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا تھا، حکومت نے وکلا کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا، 20 منٹ انتظار کرکے وکلاء نے میڈیا سے گفتگو کی اورچلے گئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ وکلاء کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی ؟
جس پر وکیل احسن بھون نے جواب دیا کہ حکومت نے ملاقات کی سہولت ہی نہیں دی ہدایت کیسے لیتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وکلاء کی کسی سینئر لیڈر سے بات نہیں ہوئی تھی، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا، فیصل چوہدری صاحب پریشان نہ ہوں آپ کو کوئی نوٹس نہیں ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ توہین عدالت کے نوٹس سے زیادہ اپنے کیرئیر کی فکر ہے، 25 مئی کی سماعت 4 حصوں پر مشتمل تھی، پہلے حصے میں ضلعی انتظامیہ کو بلایا گیا تھا، 12بجے مجھے عدالت میں بلاکر رابطے کی ہدایت کی گی۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں، بابراعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا، اسد عمر کے ساتھ میرا رابطہ ہوا انہیں آگاہ کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے؟ تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟ اسد عمر کا عہدہ کیا ہے؟۔
جس پر فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ اسد عمر پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں، عدالت کے ساتھ غلط بیانی نہیں کروں گا، اسد عمرسے رابطے کے وقت عدالت کو کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا،عدالتی حکم شام 6بجے آیا تھا،اسد عمرنے بتایا ایچ نائن گراونڈ کی درخواست دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو خدشہ تھا امن و امان کی صورتحال پیدا ہوگی۔
عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ 25 مئی کو ریڈزون کا آغاز ڈی چوک سے ہونا تھا، عدالتی حکم کے مطابق عمران خان سے ملاقات ہوتی تو قیادت کو آگاہ کرتے، 25 مئی کی شام حالات بہت کشیدہ تھے، عدالت نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے بھی منع کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کمرہ عدالت میں موجود تھا، عدالتی حکم میڈیا پر نشر کیا گیا تھا، زیادہ باریکیوں میں جانا آپ کے لئے نقصان دہ ہوگا، عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گی، کیا عدالت وکیل کی بات کا اعتبار نہ کرے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگررابطہ نہیں ہوسکا تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی، وکلاء کو ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہونا چاہیئے تھا، رات 10 بجے تک تو آگ لگ چکی تھی، کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟۔
جس پر وکیل احسن بھون نے جواب دیا کہ عدالتی حکم میں وقت ہی 10 بجے کا تھا، رابطہ نہ ہونے پر ہی عدالت نے قیادت سے ملاقات کرانے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت وکلاء کو کیس میں فریق نہیں بنانا چاہتی، جس پروکیل احسن بھون نے جواب دیا کہ عمران خان سے متعلق جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ وکلاء نے کبھی نہیں کہا تھا کہ قیادت سے رابطہ نہیں ہوا تھا، واضح یقین دہانی پرعدالت نے وکلا ءپراعتماد کیا تھا۔
احسن بھون نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کروانے کے لئے سہولت دینے کا حکم بلاوجہ نہیں تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گرؤانڈ کا کہا تھا،عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایچ نائن جانے والے راستے بند ہیں، تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا، عدالت نے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا،عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں، عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے، سپریم کورٹ کا وکیل ہونا ایک اعزاز ہے، اسد عمر سے دوسری مرتبہ رابطہ کیسے نہیں ہوسکتا تھا، عدالت کا پہلا کام تھا کہ املاک کو نقصان نہ پہنچانے کا کہتی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، 2 وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا، اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے، 10ہزار بندے بلا کر 2 لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی، فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مرگئے تھے، جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو ہفتے تک تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے توہین عدالت کیس کی سماعت تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہفتے کو آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کریں گے۔