کراچی کی خستہ حال سڑکیں اس شہر کے تقریباً 25 ملین باشندوں کے لیے روزمرہ کی حقیقت ہیں۔ اب چاہے وہ مسافروں کے لئے پہیوں پر ہوں یا پیروں پر، ناہموار یا زیر تعمیر گڑھوں سے بھری ہوئی سڑکیں روزنہ کا خطرہ ہے۔
بارش کے بعد شہر کی صورتحال مزید خراب ہوتی ہے، حال ہی میں جن سڑکوں کی تزئین و آرائش کی گئی تھی ان میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور بعض صورتوں میں اس قدر بڑے گڑھے ہوتے ہیں کہ چھوٹی گاڑی کو اس میں گرا دیا جائے۔
اس بار جب شہر میں ریکارڈ بارش ہوئی تو کراچی کی تقریباً ہر سڑک بارش کے جمع ہونے والے پانی اور سیوریج کے اوور فلو کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔
اب سیزن ختم ہونے کے ساتھ، حکام تعمیر نو کے مراحل کی جانب بڑھ گئے ہیں۔
سندھ حکومت نے سڑکوں اور سیوریج نیٹ ورک کی تزئین و آرائش کے لیے 11 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
سڑکوں کی تزئین و آرائش کا کام ستمبر میں بھرپور طریقے سے شروع کیا گیا، جس میں سب سے زیادہ متاثرہ سڑکوں پر بھاری مشینری نظر آئی تاہم ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی خبریں مرمت چند ہی روز بعد دوبارہ سامنے آنا شروع ہو گئیں۔
چمکدار سڑکوں کے جلد ٹوٹ جانے کی ایک وجہ تعمیر میں استعمال ہونے والے خام مال کا معیار ہے۔
ٹھیکیدار سرکاری افسران پر ٹھیکے کی منظوری کے لیے ”کمیشن“ لینے کا الزام لگاتے ہیں۔
ٹھیکیدار سعید مغل کا کہنا ہے کہ اگر ہم ٹھیکے حاصل کرنے اور اپنے بلوں کو کلیئر کرنے کے لیے اسپیڈ منی دے رہے ہیں تو سڑک کے معیار پر سمجھوتہ کیا جائے گا۔
اسپیڈ منی سے مراد بھتہ خوری ہے جو منظوری حاصل کرنے کے لیے بیوروکریسی راضی کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہے، گویا وہ معاہدہ حاصل کرنے یا فنڈز کے اجراء کے لیے ہو۔
سعید مغل نے آج نیوز کو بتایا کہ ٹھیکیدار ایرانی اسفالٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ رقم وصول کرتے ہیں جو انہیں ٹھیکہ دینے یا ادائیگی جاری کرنے کے ذمہ دار سرکاری اہلکار کو بطور ’کمیشن‘ ادا کرنا پڑتی ہے۔
انہوں نے بتیا کہ سڑک کے ٹینڈر دینے سے لے کر اس کی تکمیل تک کا سارا عمل مشکوک ہوتا ہے۔
ایک اور ٹھیکیدار اشفاق شیروانی نے کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے کراچی کے انجینئرنگ محکموں میں ’کمیشن کے کلچر‘ کے بارے میں بات کی۔
اشفاق شیروانی نے کہا کہ محکمے نے تقریباً 15 سال قبل کچھ تبدیلیاں کی تھیں، افسران اپنے ’خصوصی ایجنٹوں‘ کے ذریعے ڈیل کرتے ہیں۔ یہ ایجنٹ یا فرنٹ مین سرکاری افسران کی جانب سے ٹھیکیداروں کے ساتھ سودے کرتے ہیں۔
شیروانی نے ان فرنٹ مینوں پر مخصوص ’نیلی آنکھوں والے ٹھیکیداروں‘ کو ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کی تصدیق کے لیے ایڈوانس میں پیسے لینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’یہ لوگ پیسے لیتے ہیں اور صرف اس سسٹم کے تحت مخصوص لوگوں کو ٹینڈر دیتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلیت سے قطع نظر افسران کا تقرر اسی طرح کے سمجھوتہ کرنے والے نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ گریڈ 18 کے افسر کو گریڈ 20 اور گریڈ 21 کے عہدے پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اربن اینڈ انفراسٹرکچر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر پروفیسر عدنان قادر کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خام مال کے لحاظ سے صحیح تناسب کا استعمال کیا جائے۔
دوسری جانب کے ڈی اے کے چیف انجینئر ندیم اقبال نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیکے کے بدلے افسران کو کمیشن دیا جاتا ہے جوکہ ایک عمل شفاف ہے۔
ندیم اقبال کا کہنا تھا کہ ’پہلے مرحلے میں، ایک اسکیم کا اعلان کیا جاتا ہے اور محکمہ ایک کمیٹی کے ذریعے ٹینڈرز طلب کرتا ہے۔
15 روز بعد ٹینڈر کھولے جاتے ہیں اور ٹھیکیدار بولی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں، پھر محکمہ کام کو مکمل کرنے کے لیے ٹھیکیدار کی صلاحیت کا تجزیہ کرتا ہے جس کے بعد میرٹ کی بنیاد پر محکمہ ان ٹھیکہ داروںکو ٹھیکہ دیتا ہے۔