سپریم کورٹ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں 3ماہر قانون کو عدالتی معاونین مقرر کردیا جبکہ بلوچستان ہائیکورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس میں صرف آئینی سوالات کا ہی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مؤقف اپنایا کہ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ رولز میں نرمی خلاف قانون کی گئی،عدالت نے قرار دیا کہ ایک بین الاقوامی کمپنی کے لئے رولز میں نرمی کا اختیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب بھی رولز وہی ہیں یا ترمیم ہوچکی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بتایا کہ ریکوڈک سے متعلق قانون میں ترمیم ہوچکی ہے، نئے قانون کے مطابق حکومت رولز میں ترمیم کر سکتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رولز میں نرمی ہو بھی تو شفافیت لازمی ہے، جس پر عامر رحمان نے جواب دیا کہ ریکوڈک سے نکالی گئی معدنیات میں پاکستان کا حصہ 50فیصد ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حصہ جتنا بھی ہے لیکن قانون پر عمل کرنا لازمی ہے، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےیقین دہانی کروائی کہ قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جا رہا، ریکوڈک معاہدہ ماضی کے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ماہرین کے مطابق ریکوڈک پر موجودہ حالات میں اس سے اچھا معاہدہ ممکن نہیں تھا، معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو 9 ارب ڈالر سے زائد ادا کرنا ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت کا دائرہ اختیار پوچھے گئے سوالات تک محدود ہوتا ہے، ریفرنس میں صرف آئینی سوالات کا ہی جائزہ لیا جا سکتا ہے، صدارتی ریفرنس میں سیاسی یا معاشی نوعیت کے سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتے، انصاف تک رسائی آئینی تقاضا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ بین الاقوامی معاہدے سے کوئی تیسرا فریق متاثر ہو تو کیا اس کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ انصاف تک رسائی کا حق ہر شخص کو آئین نے دیا ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نےریکوڈک صدارتی ریفرنس میں بیرسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجہ اور زاہد ابراہیم ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔
عدالت نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں بلوچستان ہائیکورٹ بار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔