مقتول صحافی ارشد شریف کینیا میں جن لوگوں کے یہاں ٹھہرے اُن کے بارے میں تفصیلات سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ شروع میں پائے جانے والے تاثر کے برعکس انکشاف ہوا ہے کہ ارشد شریف نیروبی کے پوش علاقے میں ایک ممتاز پاکستانی خاندان کے پاس ٹھہرے تھے۔
اس سے پہلے اطلاعات آئی تھیں کہ ارشد شریف نیروبی سے کوئی 100 کلومیٹر دور ایک شوٹنگ رینج پر مقیم تھے اور اس کے قریب ہی گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے۔
نئی معلومات میں اگرچہ پہلے کی تفصیل کی تردید نہیں کی گئی تاہم مزید تفصیل سامنے آئی ہے۔
کینیا کے معروف اخبار دی اسٹار کے مطابق ارشد شریف نیروبی کے ریور سائیڈ ڈرائیو نامی پوش علاقے میں مقیم تھے اور ان کا قیام چند روز پر نہیں بلکہ دو ماہ پر محیط تھا۔
ارشد شریف جس فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے وہ کینیڈین شہریت کی حامل ہے اور ان کا تعلق ماگادی میں ایموڈمپ کیوینیا شوٹنگ رینج کے مالکان سے بھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ آیا مؤخرالذکر خاندان کو معلوم تھا کہ ارشد شریف پاکستان میں مطلوب و مفرور ہیں۔
جس فیملی نے ارشد شریف کی میزبانی کی وہ دولت مند ضرور ہیں لیکن شہر میں ان کی مقبولیت نہیں، جبکہ ان کا کاجیاڈو اور نیروبی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ہے اور ایک فارم بھی ان کی ملکیت ہے۔
قبل ازیں، اخبار نے رپورٹ کیا تھا کہ ارشد شریف اور خرم احمد نامی شخص جو ان کی گاڑی چلا رہا تھا، شہر واپس آرہے تھے کہ ان پر گولیاں برسا دی گئیں، جس کے نتیجے میں صحافی ہلاک ہوئے لیک خرم محفوظ رہے۔
کینیائی پولیس کی تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا کہ خرم احمد شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کے بھائی ہیں۔
خرم کے بارے میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا تھا وہ اے آر وائی کے ملازم ہیں، جبکہ وقار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف ان کے فارم ہاؤس پر رہائش پذیر تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف قتل: خرم اور وقار کون؟ رانا ثناء اللہ نے بتا دیا
یاد رہے کہ ارشد شریف نے اگست کے وسط میں اس وقت پاکستان چھوڑا تھا جب اے آر وائی ٹی وی کے صحافیوں پر مقدمے قائم کیے گئے تھے۔
اسی حوالے سے پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس میں بھی کہا تھا ایک ٹی وی چینل نے ارشد شریف کی ٹکٹس بک کرائی تھیں۔
انہوں نے اے آر وائی کے مالک کا نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ سلمان اقبال کو پاکستان لاکر تفتیش کی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: خرم اور وقار کون؟ ترجمان پاک فوج نے بتا دیا
کینیائی اخبار نے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خرم نے فائرنگ کے بعد اپنے بھائی کو فون کیا، جس نے اسے گاڑی ٹنگا شاپنگ سینٹر لے جانے کی ہدایت کی تاکہ عوامی توجہ حاصل کی جاسکے۔