سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کیخلاف اپیل کی سماعت کے دوران ان کے وکیل سے دو سوالات کے جوابات طلب کرلیے۔
درخواست کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
عدالت نے فیصل واوڈا کے وکیل کے سامنے 2 سوال رکھتے ہوئےکہا کہ بتایا جائے ہائیکورٹ کی 62 ون ایف کے تحت ڈکلئیریشن کو سپریم کورٹ برقرار رکھ سکتی ہے یا نہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ کیوں نہ سپریم کورٹ حقائق کی روشنی میں مکمل انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال کرے۔
کیس کی سماعت 9 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
اس سے قبل 19 اکتوبرکو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہوگیا ہے، کیس میں فیصل واوڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا ہے۔
فیصل واوڈاکے وکیل کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تاحیات نااہلی کا اختیارنہیں ہے، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ ہائیکورٹ کے پاس تاحیات نااہل کرنے کا اختیارہے۔
یہ بھی پڑھیں: تاحیات نااہلی کیس: ’فیصل واوڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا‘
واضح رہے کہ فیصل واوڈا نااہلی کیس الیکشن کمیشن میں 22 ماہ سے زائد عرصہ زیر سماعت رہا،ان کے خلاف 21 جنوری 2020 کو کیس دائرکیا گیا تھا جس کی الیکشن کمیشن نے 23 سماعتیں کیں۔قادر مندوخیل، میاں فیصل اور میاں آصف محمود کی جانب سے فیصل واوڈا کو نااہل قراردینےکی درخواستوں پرپہلی سماعت 3 فروری 2020 کو ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن نے سینیٹر فیصل واوڈا نااہلی کیس کا فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا جسے 9 فروری 2022 کوسنایا گیا۔
فیصل واوڈا پر 2018 عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں دوہری شہریت چھپانے کا الزام تھا وہ مارچ 2021 میں سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔