پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 8 برس میں دوسری مرتبہ حکومت کو آئین کے آرٹیکل 245 کا سہارا لینے پر مجبور کردیا ہے۔ دوسری مرتبہ بھی اس آرٹیکل کو نافذ کرنے والی حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے لیکن ایک واضح فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ہیں۔
پچھلے مرتبہ 2014 میں جب عمران خان کی اسلام آباد پر چڑھائی کے وقت آرٹیکل 245 نافذ کیا گیا تھا تو وزیرداخلہ چوہدری نثار احمد خان تھے جو عمران خان کے ایچی سن کالج کے دوست تھے۔
اس کے برعکس رانا ثنا اللہ اور عمران خان کے درمیان کوئی لحاظ مروت کا رشتہ نہیں۔
آئین کا آرٹیکل 245 مسلح افواج کے کردار کے بارے میں ہے۔ مسلح افواج کا بنیادی کردار تو بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستان کے دفاع کا ہے اور یہی بات اس آرٹیکل کے شروع میں لکھی ہے، لیکن پہلی ذیلی شق کا پہلا جملہ ختم ہونے سے پہلے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلح افواج کو جب بھی کہا جائے گا وہ سول حکومت کی معاونت میں کردار ادا کریں گی۔
یوں سول حکومت مسلح افواج کو قدرتی آفت میں ہنگامی مدد کے لیے طلب کرنے سے لے کر امن و امان کے قیام تک کوئی بھی ذمہ داری دے سکتی ہے۔
اسی آرٹیکل کی دوسری شق میں درج ہے کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کی پہلی شق کے تحت جو بھی احکامات جاری کرے گی ان کی قانونی حیثیت کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک کسی علاقے میں آرٹیکل 245 نافذ رہے گا وہاں کی ہائیکورٹ کی عملدراری معطل رہے گی۔
آرٹیکل 245 یہ بھی کہتا ہے کہ اگر اس کے نفاذ سے پہلے متعلقہ ہائیکورٹ میں کوئی معاملہ زیر سماعت ہے تو اس کی کارروائی اس وقت تک معطل ہو جائے گی جب تک یہ آرٹیکل نافذ ہے۔
گویا آرٹیکل 245 کے نفاذ کے ساتھ بنیادی حقوق سلب ہو جاتے ہیں اور کسی کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اگست 2014 کے اوائل میں جب آرٹیکل 245 نافذ کیا گیا تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بنیادی حقوق سے متعلق درخواستوں کی وصولی روک دی تھی۔
عام طور پر آرٹیکل 245 کے نفاذ کو فوج کی طلبی کے مترادف قرار دیا جاتا ہے لیکن معاملہ صرف فوج کی طلبی تک نہیں رہتا۔ چونکہ اس آرٹیکل کی پہلی شق کے تحت حکومت فوج کو کوئی بھی ہدایات دے سکتی ہے لہٰذا آرٹیکل 245 کا نفاذ منی مارشل لا قرار دیا جاتا ہے۔
2014 میں عمران خان نے لاہور سے اپنا مارچ 14 اگست کو شروع کیا اور 16 اگست کی دوپہر اسلام آباد پہنچے۔ انہوں نے نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ 17 اگست کو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت عمران خان کے مطالبات سننے کے لیے تیار ہے حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اسی شام عمران خان کے مطالبات کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
چوہدری نثار سمیت حکومت نے پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی عوامی تحریک کو اس شرط پر احتجاج جاری رکھنے کی اجازت دی کہ وہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے لیکن 20 اگست تک مظاہرین ریڈ زون میں دھرنا دے کر بیٹھ چکے تھے۔
اگلے کئی روز مظاہرین اور فورسز میں آنکھ مچولی جاری رہی۔ 12 ستمبر کو پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کی عمارتوں پر دھاوے کے بعد چار ہزار کارکنوں کو جیل بھیجا گیا۔
عمران خان نے مظاہرے ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان کیا۔ نومبر کے دوران پنجاب بھر میں جلسے ہوئے۔
اسلام آباد میں یہ احتجاج 16 دسمبر کو اس وقت ختم ہوا جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔
عمران خان نےاس سانحے کے پیش نظر احتجاج ختم کردیا۔ اگر حکومت کا خاتمہ ان کا مقصد تھا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ دو برس بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔