کینیائی حکام کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے تازہ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
کینیا کے معروف اخبار ’دی اسٹار کینیا‘ نے پولیس افسران کے حوالے سے کہا ہے کہ جب مقتول صحافی ارشد شریف کی گاڑی پولیس ناکے پر پہنچی تو ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی، جبکہ اس گاڑی سے گولی چلائی گئی جس سے ایک اہلکار زخمی ہوا اور اس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں چوٹ لگی۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی ٹیم سے آئی ایس آئی افسر کو ہٹا دیا گیا
اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس واقعے سے قبل ارشد شریف نے دن کا بیشتر وقت علاقے میں واقع ایک شوٹنگ رینج پر گزارا جو گاڑی میں موجود خرم احمد کے بھائی وقار احمد کی ملکیت ہے۔
ارشد شریف قتل: خرم اور وقار کون؟ رانا ثناء اللہ نے بتا دیا
پولیس بیان میں جس شوٹنگ رینج کا ذکر کیا گیا ہے وہ وقار احمد نامی ایک شخص کی ملکیت ہے۔
سوشل میڈیا پر سرگرم ایک غیر ملکی صحافی علی مصطفیٰ نے واقعے میں خرم اور وقار احمد کے کردار پر سوال اٹھائے، جو قریب ہی مقیم رئیس پاکستانی ہیں، اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
علی مصطفیٰ نے مزید لکھا، “ وقار کا کردار معاملے میں خاص طور پر کلیدی نظر آتا ہے، جس کا جائے وقوعہ کے قریب ہی ایک ہَٹ اور ہومز ریزورٹ ہے۔“
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ارشد شریف نے قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل امیر پاکستانی شہری وقار احمد کی ملکیت ایمو ڈمپ شوٹنگ رینج کا دورہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے قتل سے متعلق جعلی اکاؤنٹ سے سنگین دعوے
انہوں نے لکھا، ”وقار احمد کا ”ایمو ڈمپ“ کینیا کی کاروباری ویب سائٹ پر ’ملٹری سپلائیز بزنس‘ کے طور پر بھی درج ہے۔“
قبل ازیں کینیائی پولیس کی جانب سے واقعے کو غلط شناخت کا معاملہ قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جی ایس یو افسران نے ٹویوٹا لینڈ کروزر پر نو گولیاں چلائیں جس میں صحافی ارشد شریف ہلاک ہوئے۔
دی اسٹار کے مطابق پولیس مرسڈیز بینز سے ملتی جلتی ایک کار کا انتظار کر رہی تھی جس کے گمشدہ یا چوری ہونے کی اطلاع دی گئی تھی، اسی دوران ارشد شریف کی گاڑی ایک ناکے پر نظر آئی۔
جی ایس یو افسران کا کہنا ہے کہ انہیں مقامی لوگوں نے الرٹ کیا تھا کہ وہ جس کار کی تلاش کر رہے تھے وہ ان کی سمت تیزی سے آرہی تھی۔
کینائی میڈیا کے دعوے کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ واقعے کے وقت ان کے ڈرائیور خرم احمد علاقے میں شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کے بھائی تھے۔
ارشد شریف 23 اکتوبر بروز اتوار کو اموڈمپ کیونیا شوٹنگ رینج میں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی قاتل اسکواڈنے ارشد شریف کو گولی مروائی، سابق نیروبی گورنر
خرم نے فائرنگ کے بعد اپنے بھائی کو فون کیا اور انہیں اس واقعے سے آگاہ کیا، جنہوں نے ارشد کو اپنی گاڑی میں ٹنگا شاپنگ سینٹر لے جانے کی ہدایت کی۔ جب وہ گیٹ کے قریب پہنچے تو ارشد شریف کا کفی خون بہہ چکا تھا۔
بعد میں پولیس وہاں پہنچی اور اسلحے کی بر آمدی کیلئے گاڑی کی تلاشی لی اور لاش کو مردہ خانے منتقل کر دیا۔
کینیائی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس جس مبینہ چوری شدہ گاڑی کا تعاقب کر رہی تھی وہ مرسڈیز بینز سپرنٹر وین رجسٹریشن نمبر ”KDJ 700F“ تھی، جبکہ مقتول پاکستانی صحافی ارشد شریف جس گاڑی میں سفر کر رہے تھے وہ ٹویوٹا لینڈ کروزر V8 تھی جس کا رجسٹریشن نمبر ”KDJ 200M“ ہے۔
23 اکتوبر بروز اتوار ڈگلس وائنینا نامی ایک شخص نے پنگانی پولیس اسٹیشن کے تفتیشی حکام کو بتایا کہ وہ اپنی گاڑی کو اپنے بیٹے کے ساتھ نگرا کے ایک پارکنگ لاٹ میں چھوڑ کر گیا تھا، لیکن واپسی پر جہاں اس نے گاڑی چھوڑی تھی، وہاں اسے وہ نہیں ملی۔
پولیس کے مطابق گاڑی کا سراغ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ گاڑی کاجیاڈو کاؤنٹی کے کیسیرین علاقے میں موجود ہے، جس کے بعد علاقے میں موجود پولیس اہلکاروں اور ماگادی جنرل سروس یونٹ کے تربیتی کیمپ کے سربراہ کو الرٹ کیا گیا اور گاڑی کو روکنے کے لیے کہا گیا۔
چوری شدہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر وینینا کا 26 سالہ شخص موجود تھا جس کی شناخت ڈنکن کے نام سے ہوئی تھی۔
پولیس نے گاڑی کو کسریان کے ایک پیٹرول اسٹیشن سے برآمد کیا۔
تفتیش کے بعد ملزم نے پولیس کو بتایا کہ اس نے غصے میں اور اپنے والد کے ساتھ غیر واضح وجوہات پر بحث کرنے کے بعد کار چرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم، پولیس کے مطابق گاڑی کی تلاش کا آپریشن اس وقت بھی جاری تھا۔
ملزم کو منگل کے روز بنا لائسنس گاڑی چلانے پر عدالت میں پیش کیا گیا، لیکن اس کے والد کے وکیل الیشا ندیمو نے چوری شدہ گاڑی کیس واپس لے لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ معاملہ ابھی زیر تفتیش ہے اور انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوور سائیٹ اتھارٹی تحقیقات میں شامل ہو گئی ہے۔