سندھ کے سیلاب زدہ کئی اضلاع کے سول ججز نے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے کاموں کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔
حیدرآباد کے وکیل ممتاز احمد لاشاری نے سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ حیدرآباد میں وفاق، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، حکومت سندھ، سیکریٹری محکمہ آبپاشی، چیف انجینیئر کوٹری بیراج، کمشنر حیدرآباد اور مینیجنگ ڈائریکٹر سیڈا کو فریق بناتے ہوئے پٹیشن دائر کی تھی۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ بارشوں اور سیلاب نے صوبہ سندھ کو تباہ کن صورت حال سے دوچار کیا ہے جس کے باعث انسانی زندگیوں، مویشیوں، گھروں اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
لیکن اس سے محفوظ رہنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور حالیہ سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات کے بعد ملکی اور بین الاقوامی اداروں سمیت اقوام متحدہ اور عرب ممالک سمیت دنیا بھر کے ملکوں نے سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کے امور سرانجام دینے کے لیے امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ کے متعدد علاقے اب بھی زیر آب ہیں اس لیے متعلقہ اداروں کی غفلت، اقربا پروریاور بددیانتی پر ان سے جواب دہی کی جائے جس پر 6 اکتوبر کو عدالت نے کراچی کے سوا سندھ بھر کے سول ججز کو احکامات صادر کیے کہ متاثرہ اضلاع کا دورہ کرکے اصل صورت حال کا جائزہ لیں۔
جس پر 20 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں سول جج دادو، جوہی، خیر پور ناتھن شاہ، سانگھڑاور ٹنڈو آدم کے سول ججز نے سیشن ججز کے توسط سے اپنی رپورٹس عدالت میں پیش کردیں جس میں متعلقہ اضلاع میں امداد اور بحالی کے کاموں کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔
جس کے بعد عدالت عالیہ نے چیف سیکرٹری سندھ کو اپنی پوزیشن واضح کرنے ہدایات جاری کرتے ہوئے این ڈی ایم اے کے انچارج کو آئندہ سماعت میں پیش ہونے جبکہ آڈیٹر جنرل کو حکومت سندھ کی جانب سے جاری کردہ فنڈز پر فارنسک آڈٹ کی ہدایات جاری کردی ہیں۔