سپریم کورٹ نے عمران خان کو نوٹس اورحالیہ لانگ مارچ پر عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی جبکہ عدالت نے وزارت داخلہ کی توہین عدالت کی درخوست پر عمران خان، بابراعوان اور فیصل چوہدری سے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی وزارت داخلہ کی درخواست پرسماعت کی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے25 مئی کے پی ٹی آئی لانگ مارچ، پولیس، آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹس پڑھیں اورعمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کے لانگ مارچ ڈی چوک پہنچنے کے اعلانات سے بھی آگاہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ عمران خان نے تقریر میں عدالت سے رکاوٹیں ہٹانے کا بھی کہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے خان صاحب کوعدالتی حکم بارے بتایا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پولیس، آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس پر سب کا انحصار ہے، عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان نے 6 بجکر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا، عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بج کر 54 منٹ پرکیا۔
عامررحمان نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی تھی، عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا، شیری مزاری اور فواد چوہدری نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عثمان ڈار، شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلاء نے دی تھی، عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا، عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے، عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے؟ عمران خان عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابراعوان اور فیصل چوہدری نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی درخواست پر عمران خان کو نوٹس جاری کریں گے، بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو بھی نوٹس جاری کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہے، نوٹس میں یقین دہانی کا ذکر ہے لیکن تحریری طور پر کہاں ہے؟۔
جس پر عامر رحمان نے کہا کہ عدالت نے وکلاء کو عمران خان سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں، تحریری مواد نہ ہو تو کسی کو بلانے کا فائدہ نہیں، رپورٹس میں اتنا جواز موجود ہے کہ عمران خان سے جواب مانگا جائے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر نوٹس بھی کریں تو عمران خان کا پیش ہونا ضروری نہیں، سرخیاں نہیں بنوانا چاہتے، قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، سول نوعیت کی توہین عدالت میں شوکاز پر ہی پیش ہونا پڑتا ہے۔
سپریم کورٹ نے عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چوہدری سے جواب طلب کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی۔
جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ان کے وکلاء تحریری طور پر عدالت کو مطمئن کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہے خفیہ رپورٹس ہیں، کورٹ آف لاء میں خفیہ رپورٹس نہیں ہوتیں۔
عدالت نے آئی ایس آئی، آئی بی اور اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی فراہم کرنا کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کی روشنی میں جواب جمع کروایا جائے۔
وفاق نے عمران خان کے حالیہ لانگ مارچ پر بھی نوٹس دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کی۔