Aaj Logo

شائع 25 اکتوبر 2022 03:34pm

خواتین اور کتوں کو اس مقام سے آگے اجازت نہیں، شیری سندھ کلب پر برہم

وفاقی وزیر برائے ماحولیات سینیٹر شیری رحمان سندھ کلب کے عورت مخالف رویے سے بیزار آچکی ہیں اور چاہتی ہیں کہ کم از کم پڑھی لکھی خواتین اس کلب کا استعمال بند کردیں۔

انہوں نے اپنے تین ٹویٹس میں جو تصاویر پوسٹ کیں وہ ایک میٹنگ کی ہیں جس میں کلب کے صدر اور دیگر ممبران خواتین کی بطور ممبر شمولیت پر بحث کر رہے ہیں۔

کراچی کا سندھ کلب 1871 میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے 28 سال بعد قائم ہوا تھا اور اس میں صرف مردوں کو بطور ممبر تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس کی رکنیت دیگر کلبز کی طرح ہر سال نہیں کھولی جاتی۔

آج اس میں تقریباً 1400 مرد اور 3047 ”گھریلو خواتین“ ہیں جو ان مردوں سے اپنے روابط کی بنیاد پر کلب کی سہولیات کا استعمال کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر آپ بیوی، غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ بیٹی یا کسی رکن کی بیوہ وغیرہ ہیں تو آپ کلب کا استعمال کر سکتی ہیں۔

میٹنگ کے منٹس میں کلب کے صدر نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کلب میں ”ہماری خواتین کی مناسب نمائندگی موجود ہے۔“

اجلاس میں ممبر سید علی حسنین نے خواتین کی شمولیت کی تجویز کے جواب میں جو کچھ کہا وہ کئی محاذوں پر روشن خیال تھا کیونکہ سینیٹر رحمان نے جو کہا وہ ایک ”بے حد“ پدرانہ اور قدیم تصور تھا۔

انہوں نے کہا کہ ”یہ حضرات کے لیے ایک کلب ہے اور جب سے قائم ہوا ہے، یہ ہمیشہ حضرات کے لیے ہی رہا ہے۔ ہم وقت اور نمبروں کے ساتھ آگے بڑھے ہیں جو آپ نے رکنیت سے پہلے بتائے ہیں، اور یہ اس کا ثبوت ہیں۔ یہ شہری آزادیوں،حقوق اور صنفی مساوات کی تحریک نہیں ہے۔ ہم ایک جنٹلمینز کلب ہیں (لمبی تالیاں)… ہم خواتین ممبرز کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اور یہ بات بار بار سامنے آئی ہے اور اسے بس روک دیا جانا چاہیے۔“

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ، ”یہ حیران کن ہے پاکستان میں اشرافیہ کی طاقت کے مرکز میں ایسے پرائیویٹ کلبوں کے اراکین بیٹھتے ہیں جو خاندانی سرگرمیوں اور آمدنی کو استعمال کرتے ہیں، لیکن اکثریت خواتین کے خلاف نوآبادیاتی قوانین کے نفاذ پر فخر محسوس کرتی ہے۔“

”یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ پرائیویٹ کلب اپنے قوانین خود بنا سکتے ہیں۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”کم از کم پڑھی لکھی خواتین کو اس کلب کا استعمال بند کر دینا چاہیے۔ وہ اپنے بائی لاز کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، درحقیقت امتیازی سلوک پر فخر کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ان کا مدر کلب 21 ویں صدی میں اس طرح کے قوانین سے دہل ہو جائے گا۔“

Read Comments