سندھی زبان کے معروف انقلابی شاعر جمن دربدر عمر کوٹ میں انتقال کرگئے۔
جمن دربدر نے 80 سال کی عمر پائی، ان کے اہلخانہ کے مطابق معروف شاعر کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔
عمرکوٹ کے قریب روحل واہ کے قبرستان میں جمن دربدر کی تدفین کر دی گئی، جمن دربدر کی نماز جنازہ اور تدفین میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
فنکاروں اور سازندوں نے جمن دربدر کا جنازہ ان کی شاعری گاتے ہوئے اٹھایا۔
غریب اور سادہ افراد میں بڑے لوگ کیسے ہوتے ہیں، اس کی مثال ماما جمن دربدر ہیں۔وہ بنیادی طورپر عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے شاعر،ڈرامہ نگار، مزاح نگار اور گائک تھے۔
ان کی شاعری نوجوانوں میں بہت مقبولیت رکھتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بہت سے فنکاروں نے نے ان کی شاعری گائی ہے۔
محمد جمن، جنہیں سندھ ماما جمن دربدر کے نام سے جانتے تھے، وہ 12 مئی 1944ء کو گوٹھ روحل واء ضلع عمرکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کے ساتھ ماما جمن مدرسے کے طالب رہے۔ ہارٹیکلچر میرپورخاص سے زراعت کا کورس پاس کرکے فیلڈ اسسٹنٹ مقرر ہوئے۔
کالج کے زمانے میں ان کا جھکائو ترقی پسند قوم پرست تحریک کی طرف ہوا۔ وہ جی ایم سید کی تنظیم بزم صوفیائے سندھ میں بھی شامل رہے۔
جمن دربدر عبدالواحد آریسر کے ساتھ ایک ہی مدرسے میں پڑھے تھے۔ عبدالواحد آریسر اور جام ساقی کے قریبی ساتھی بھی رہے۔
اس دوران انہوں نے پہلے عشقیہ شاعری کی جو بعد میں انسانی حقوق، ترقی پسند قوم پرست شاعری کے روپ میں ڈھل گئی۔
جی ایم سید ماما جمن کی شاعری اکثر گنگنایا کرتے تھے اور مہمانوں کو ان کی شاعری کا انگریزی ترجمہ بھی سناتے تھے، جی ایم سید کے مزار پر آج بھی ماما جمن دربدر کی شاعری کنندہ ہے۔
ماما جمن سندھی شاعری کے صف اول کے شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ جنرل ضیاء کی مارشل لاء کے خلاف انہوں نے شاعری کی اور سختیاں جھیلیں۔