بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ہم دس بیس سال سے سچائی اور مصالحتی کمیشن کا مطالبہ کر رہے تھے، چارٹر آف ڈیموکریسی میں بھی یہ نکات شامل تھے، پی ڈی ایم کے وجود میں بھی یہ نکات رکھے گئے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی سے گفتگو کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ ”ٹروتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن“ ضروری ہے تاکہ سب کچھ عیاں ہوجائے، وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اگلے کابینہ اجلاس میں تجویز رکھوں گا، لیکن اس سے پہلے بھی یہ کام ہو سکتا ہے، وزیراعظم اپنے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے اس کمیشن کا اعلان بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ دیرینہ ہے جو جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا، بلوچستان میں پہلا لاپتہ شخص 1976 میں میرا اپنا بھائی تھا۔ لیکن اس میں کمی آنے اور حل تلاش کرنے کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے موجودہ اور گزشتہ حکومتوں کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ہے، اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جو اس مسئلے کو دیکھ رہی ہے۔ لیکن بازیابی تو ایک طرف، لاپتہ افراد کی جو فہرستیں پیش کی گئی انہیں جعلی انکاؤنٹرز میں شہید کیا جارہا ہے۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی، ہم حکومت کا حصہ وزارتوں کیلئے نہیں بلکہ قومی اور علاقائی مسائل کے حل کیلئے ہیں۔ اگر ہم ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے پارلیمان اور اتحاد ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر افواجِ پاکستان اور سابق وزیراعظم بینظیر کے قتل میں ملوث طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو بلوچستان سمیت ملک بھر کے لاپتہ افراد کیلئے مذاکرات کیوں نہیں؟ یا تو آپ قانون بنا دیں کہ لوگوں کو اٹھا کر لے جانا اور ان کو مارنا جائز ہے تو ہم کسی کے دروازے پر نہیں جائیں گے۔
سربراہ بی این پی نے کہا کہ اگر لاپتہ افراد پر الزامات ہیں تو انہیں کم سے کم عدالتوں میں پیش کریں اور ورثاء کو بتائیں، یہ خود ہی جج بنتے ہیں خود ہی فیصلہ سناتے ہیں اور جعلی انکاؤنٹر میں مار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے اس حوالے سے قانون سازی کی یقین دہانیاں کی جا رہی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو پارہا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی دن کہا تھا ہمیں وزارتوں کو شوق نہیں، اس سے بہتر وزارتیں ہمیں عمران خان کے دور میں مل رہی تھیں لیکن ہم نے اپنے مسائل کو ترجیح دی۔ اتحاد کا یہ کڑوا گھونٹ ابھی تک ہمارے حلق میں اٹکا ہوا ہے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کو اس نہج پر پہنچانے والی بھی اسٹیبلشمنٹ ہے اور اس سے نکال بھی یہی سکتے ہیں۔ انہیں اپنی ذہنیت تبدیل کرنی ہوگی اور بلوچستان کے لوگوں کو انسان تصور کرنا ہوگا۔
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر کہا تھا کہ نفرت کو دنیا کی کوئی ایٹمی طاقت بھی ختم نہیں کر سکتی، نفرت اس ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ہمیں اس مقام تک نہ دھکیلا جائے جہاں سے ہم واپس نہ آسکیں۔
سردار اختر مینگل نے 14 جولائی کو زیارت، مستونگ اور 17 اکتوبر کو خاران میں پیش آنے والے واقعات کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادوار میں حکومتیں بدلتی رہی ہیں مگر بلوچستان کے حالات تبدیل نہیں ہوئے، ہم یہ افسوس ناک صورتِ حال قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرتے رہتے ہیں مگر ہماری حالت نہیں بدلتی۔
اختر مینگل نے مطالبہ کیا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نہ مارا جائے۔