وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ جو زخم ریاست کے وجود سے رس رہا ہے اس پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، قوم نے جن کو وقار اور توقیر دی ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ریاست کے وجود کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈیں۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سردار اختر مینگل کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں کہا کہ سردار اختر مینگل نے جو کچھ اس ایوان میں کہا اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، اختر مینگل نے ایسے معاملات اٹھائے ہیں جو ہماری ریاست کے جسم پر رستے ہوئے زخم ہیں، انہیں نظرنداز کرنا مہلک ثابت ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سوات میں فائرنگ، وکیل جاں بحق
خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں کچھ ایسے اقدامات پورے زور و شور کے ساتھ کئے گئے، اگر ان تمام اقدامات کو ماضی میں دیکھا جاتا تو حالات یہ نہ ہوتے۔ یہ بڑا گھمبیر اور ہماری ریاست کا مسئلہ ہے، یہ کسی فرد واحد یا کسی ایک شخص کا نہیں ساری قوم کا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ کئی ایسے معاملات ہیں جن پر ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ گیارہ بارہ سال پہلے سوات میں جو کچھ ہوا اب وہاں پر ایک مرتبہ پھر وہی کچھ شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک بات خوش کن ہے سوات کے لوگ بغیر کسی سیاسی اختلاف کے بازاروں میں نکل آئے۔ جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ سوات اور بعض دوسرے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آگ سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے، وزیراعظم کو یہ مسئلہ اعلیٰ سطح پر حل کرنے کے لئے فوری توجہ دینا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: صوبائی وزیر عاطف خان کو ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتے کا خط موصول
خواجہ محمد آصف نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بے چینی کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے، اس کا حل ہمارے ان بھائیوں کے پاس ہے، یہ معاملات بیٹھ کر حل ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ ماضی میں بویا اس کا کڑوا پھل کاٹ رہے ہیں۔ تمام حکمران اشرافیہ نے غلطیاں کی ہیں، ہر ایک سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وطن عزیز میں عدلیہ اور فوج کی مداخلت ہوتی رہی، ماضی میں فاش غلطیاں کی گئیں۔ اقتدار کی جنگ بعد میں بھی لڑی جاسکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں پہلے بلوچستان میں 600 لاشیں گرائی گئیں اور اس کے ایک سال بعد لیاقت باغ کے واقعہ میں لاشیں گریں۔ چھوٹے صوبے لاشیں اٹھا کر خاموشی سے چلے گئے لیکن انہوں نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی جماعت اور حکومتی اتحاد کی طرف سے کہتا ہوں کہ سکیورٹی کے معاملات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم وفاق کو اکٹھا رکھیں۔ اختر مینگل نے جن خدشات کا ذکر کیا ہے وہ حقیقی ہیں۔ پاکستان کی چاروں اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ سرحدوں کے ذریعے منسلک ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر کہا تھا کہ نفرت کو دنیا کی کوئی ایٹمی طاقت بھی ختم نہیں کر سکتی، نفرت اس ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ہمیں اس مقام تک نہ دھکیلا جائے جہاں سے ہم واپس نہ آسکیں۔
سردار اختر مینگل نے 14 جولائی کو زیارت، مستونگ اور 17 اکتوبر کو خاران میں پیش آنے والے واقعات کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادوار میں حکومتیں بدلتی رہی ہیں مگر بلوچستان کے حالات تبدیل نہیں ہوئے، ہم یہ افسوس ناک صورتِ حال قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرتے رہتے ہیں مگر ہماری حالت نہیں بدلتی۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم پی ٹی آئی کے اتحادی تھے تو اگست 2018ء میں ہم نے لاپتہ افراد کی فہرست دی تھی۔
اختر مینگل نے مطالبہ کیا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نہ مارا جائے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیات سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سر اُٹھا رہی ہے، جہاں آپریشنز ہو رہے ہیں ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔
شیریں رحمان نے قومی اسمبلی میں معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا سانحہ کارساز تھا۔ ابھی تک ہمارے زخم نہیں بھرے لیکن اب دہشت گرد پھر سر اُٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سوات آپریشن شروع ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو سوات یا دیگر علاقوں میں دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
شیری رحمان نے بلوچستان میں صورتِ حال کو بہتری کی طرف لے جانے کے لیے سچائی اور مصالحتی کمیشن کے قیام کی تجویز دی۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیل نے ملک میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ امریکا پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔
ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری چاہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ پاکستان تمام دہشت گردوں کے خلاف مستقل کارروائی جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت کچھ ممالک نے دہشت گردی کی وجہ سے نقصان اٹھایا ہے اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں جن سے عدم استحکام اور علاقائی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں، اس سے نمٹنا ان ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔