Aaj Logo

شائع 19 اکتوبر 2022 04:52pm

بھارت نے پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر کو امریکا جانے سے روک دیا

بھارتی حکام نے ایک ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر کو پلٹزر پرائز وصول کرنے کے لیے امریکا جانے سے روک دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں کئی کشمیری صحافیوں کو ملک چھوڑنے سے روکا گیا ہے۔ ثنا ارشاد مٹو ان چار صحافیوں میں سے ایک تھیں جو روئٹرز نیوز ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اس سال فیچر فوٹوگرافی کا باوقار ایوارڈ اپنے نام کیا۔

اٹھائیس سالہ نوجوان صحافی نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے دگرگوں حالاتِ زندگی عکس بند کرنے کے لیے کئی تعریفیں سمیٹیں، خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع اور انتہائی ملٹرائزڈ ہمالیائی علاقہ ہے جو دہائیوں پرانی شورش کا گڑھ ہے۔

مٹو کو امیگریشن حکام نے منگل کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا، جبکہ ان کے دو ساتھیوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دیدی گئی۔

بعد میں مٹو نے اپنے ٹکٹ کی ایک تصویر ٹوئٹ کی جس پر ”بغیر کسی تعصب کے منسوخ“ کی مہر لگی تھی۔

“اس حوالے سے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو دئے گئے اپنے رد عمل میں مٹو کا کہنا تھا کہ ”میں نہیں جانتی کیا کہنا ہے… یہ میرے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا موقع تھا۔“

”مجھے بغیر کسی وجہ کے روکا گیا اور باقیوں کو جانے دیا گیا۔ شاید اس کا میرے کشمیری ہونے سے کوئی تعلق ہو۔“

یہ رواں سال دوسرا موقع تھا جب مٹو کو بھارت چھوڑنے سے روکا گیا۔

جولائی میں کتاب کی رونمائی اور فوٹو گرافی کی نمائش کے لیے پیرس جاتے ہوئے انہیں اسی طرح ہوائی اڈے پر روکا گیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں نئی قانون سازی کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینے کے بعد اب تک کئی بار کئی مہینوں تک وادی میں انٹرنیٹ کنکشن منقطع کیا اور متوقع ردعمل کو روکنے کے لیے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا ہے۔

غیر ملکی صحافیوں کو کشمیر جانے سے روک دیا گیا ہے اور علاقے میں مقیم مقامی رپورٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے کام کو دباؤ کے تحت محدود کردیا گیا ہے۔

مٹو کلے علاوہ کئی دیگر کشمیری صحافیوں کو بھی حکام نے گزشتہ تین سالوں میں بیرون ملک سفر کرنے سے روکا گیا ہے۔

آزاد صحافی آکاش حسن، جو گارجین اخبار کے باقاعدہ معاون ہیں، انہیں جولائی میں کام کے لیے نئی دہلی سے سری لنکا جانے والی پرواز میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ مہینوں بعد بھی انہیں حکام کی جانب سے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی کہ انہیں سفر کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔

حسن نے اے ایف پی کو بتایا، ”اس طرز کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف کشمیری صحافیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔“

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے بہ لیہ یی نے ایک بیان میں کہا کہ مٹو کو جانے سے روکنے کا فیصلہ ”من مانی اور ضرورت سے زیادہ“ تھا۔

انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کے خلاف ”ہر طرح کی ہراسانی اور دھمکیاں“ بند کرے۔

Read Comments