شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی بریت کے معاملے میں اٹارنی جنرل آفس نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اٹارنی جنرل آفس نے سپریم کورٹ سے اظہار تشویش کے لیے خط کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کی بریت کے فیصلے سے قبل اٹارنی جنرل آفس سے رائے طلب نہیں کی گئی۔
خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو پہلے ہی اہم آئینی معاملہ قرار دے چکی ہے، اس طرح کے اہم آئینی معاملات پر پہلے بھی اٹارنی جنرل کی رائے طلب کی جاتی رہی ہے۔
مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سپریم کورٹ نے شاہ رخ جتوئی و دیگر ملزمان کو بری کردیا
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ جبران ناصر کیس میں اٹارنی جنرل آفس پہلے ہی قرار دے چکا ہے کہ معاملہ دہشت گردی کا ہے۔
خط کے متن کے مطابق اٹارنی جنرل نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا تھا، بریت کے فیصلے میں سپریم کورٹ دہشت گردی جرائم پر عدالتی فیصلوں سے ہٹ کر نتیجے پر پہنچی ہے۔
خط کے متن میں تحریر کیا کہ سمجھوتے، فساد فی الارض اور دیگر معاملات میں اس کیس پر نظر ثانی بنتی ہے۔
گزشتہ روزسپریم کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور دیگرملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہوچکا ہے، ملزمان کا دہشت پھیلانےکا کوئی ارادہ نہیں تھا، قتل کے واقعے کودہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔
واضح رہے کہ 25 دسمبر 2012میں شاہ زیب خان کو تلخ کلامی پر شاہ رخ جتوئی اوران کے ساتھیوں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے جون 2013 میں شاہ رخ جتوئی اورنواب سراج تالپور کو سزاے موت جبکہ نواب سجاد غلام مرتضی کوعمرقید سنائی تھی۔
2013 میں سندھ ہائیکورٹ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے ماتحت عدالت کو دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا ۔
2017 میں قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد ملزمان کی رہائی ہوئی تو عدالت عظمی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا جبکہ مئی 2018 عدالت عالیہ نے ملزمان کوعمرقید سنائی تھی ۔
سندھ ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے چاروں ملزمان کوعمر قید سنا دی تھی، ملزمان نے عمر قید کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں،جہاں سے وہ بری ہوگئے۔