ہیرے اپنی ندرت کے اعتبار سے زیورات میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ان کیلئے جنگیں لڑی گئیں، خون بہایا گیا اور ان کے حصول کیلئے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
اگر آپ نے کبھی فلم ”بلڈ ڈائمنڈ“ دیکھی ہو تو آپ ان قیمتی پتھروں کی کان کنی سے وابستہ غلامی کی پریشان کن تاریخ کے بارے میں بھی جانتے ہوں گے۔
لیکن اب ایک حالیہ اعلان نے اس کاروبار سے منسلک افراد اور ان کے حصول کے شوقینوں کوصدمے میں مبتلا کردیا ہے۔
حالیہ سائنسی تحقیق میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح لیزر کی مدد سے کچرے کو خزانے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
کیا ہوگا اگر سستے پلاسٹک کی شیٹس پر انتہائی طاقت ور لیزر استعمال کی جائے؟
یہ وہ سوال تھا جس کا جواب یورپی محققین کے ایک گروہ نے دریافت کرنے کا فیصلہ کیا اور نتائج سے لوگوں کے منہ کھلے رہ گئے، کیونکہ کچرا سمجھے جانے والے پلاسٹک کے ٹکڑے ”نینوڈائمنڈز“ میں تبدیل ہوچکے تھے۔
یہ سائز میں ایک میٹر کے چند اربویں حصے پر مشتمل انتہائی چھوٹے قیمتی پتھر ہیں۔ یعنی آپ فی الحال انہیں زیورات میں استعمال نہیں کر سکتے۔
اس کے باوجود یہ ممکنہ استعمالات کی حیرت انگیز تعداد کے ساتھ آتے ہیں۔ جیسا کہ جرمن ماہر طبیعیات اور مطالعہ کے شریک مصنف ڈومینک کراؤس بتاتے ہیں کہ ”نینوڈائمنڈز کو درجہ حرارت اور مقناطیسی شعبوں کے لیے انتہائی چھوٹے اور انتہائی درست کوانٹم سینسر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔“
نینوڈائمنڈز کے ممکنہ استعمالات بہت زیادہ ہیں جو سائنس دانوں کو مستقبل کی دریافتوں کے لیے ایک دلچسپ راستہ پیش کرتے ہیں۔ ممکنہ ایپلی کیشنز میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دوسری گیسوں میں تبدیل کرنے کے لیے ان کا استعمال شامل ہے۔
کچھ محققین کا خیال ہے کہ انہیں انسانی جسم کے مخصوص حصوں تک ادویات پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
محققین کو یہ بھی امید ہے کہ مطالعہ کی اس لائن سے دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی کے موجودہ مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
ہم نینوڈائمنڈز سے جو کچھ سیکھ سکتے ہیں وہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ یہ نیپچون اور یورینس جیسے سیاروں کے برف کے پہاڑوں پر پائے جانے والے مادوں کی طرح نظر آتے ہیں۔
ان سیاروں نے طویل عرصے سے سائنس دانوں کو حیران کر رکھا ہے، لیکن پلاسٹک سے بنے ہیروں کی مدد سے انہیں جلد ہی کچھ جواب مل سکتے ہیں۔
واضح طور پر ان نتائج میں دنیا کی سب سے چھوٹی منگنی کی انگوٹھی بنانے کے علاوہ بہت کچھ ہے!
تجربے کی تفصیلات کے لحاظ سے طبیعیات دانوں نے پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ یا پی ای ٹی، پلاسٹک کی شیٹ کا استعمال کیا۔ (بنیادی طور پر، وہی چیزیں جو سوڈا اور پانی کی بوتلوں میں پائی جاتی ہیں۔)
اس مواد کو 10 ہزار فارن ہائٹ پر انتہائی گرم کرنے کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک اربویں حصے کے لیے اس میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
گرمی نے زمین کے ماحولیاتی دباؤ کی نقل کی اور فوری عمل نے پلاسٹک کو ہائپر کمپریس کرتے ہوئے اس کی سالماتی ساخت کو تبدیل کر دیا۔ پلاسٹک میں پایا جانے والا کاربن کرسٹلائز ہوگیا، جس سے آکسیجن اور ہائیڈروجن اس میں سے باہر نکل گئے۔ کرسٹلائزڈ کاربن نے نینوڈائمنڈز بنائے۔
جہاں تک آکسیجن اور ہائیڈروجن کا تعلق ہے، وہ ”سپریونک واٹر“ یا ”سپریونک آئس“ بن گئے۔
یہ انتہائی گرم برف کائنات کے پانی کی سب سے عام شکل کی نمائندگی کر سکتی ہے اور اس میں سے بجلی بھی بہتر طریقے سے گزر سکتی ہے۔
سالماتی سطح پر کاربن، آکسیجن اور ہائیڈروجن کو ”ڈی مکس“ کرنے کا عمل نیپچون اور یورینس پر لامحدود ہیروں (اور پانی) کی موجودگی کا بھی اشارہ دے سکتا ہے۔
اس سب کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا۔ لیکن ایک چیز یقینی ہے، ”نینوڈائمنڈز کسی خاتون کے نہ سہی لیکن ایک سائنس دان کے بہترین دوست ضرور ہیں۔“