1980 کی دہائی میں جب پاکستانی نوجوان پیک مین اور ڈنکی کونگ جیسے گیمز کھیلنے کے لیے ہاتھوں میں سکّے تھامے آرکیڈ گیمز کی دکانوں پر رش لگائے کھڑے تھے تو اس دوران امریکا میں ایک الگ اور انوکھے ”گیم“ کے چرچے تھے۔
امریکی ریاست پورٹ لینڈ کے اوریگون شہر میں آرکیڈ گیمز کی رنگ برنگی دکانوں میں ”پولی بیئس“ (Polybius) رکھا گیا۔
یہ ویڈیو گیم بظاہر اتنا خطرناک تھا کہ اس نے کھیلنے والوں کو مبینہ طور پر بیمار کر دیا، اور اس کے بارے میں کہا گیا کہ سرکاری خفیہ ایجنٹس اسے دماغوں پر قابو پانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
تاہم، گیم کا سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ آیا یہ کبھی موجود بھی تھا یا نہیں؟
پولی بیئس مبینہ طور پر ایک آرکیڈ گیم ہے جس نے 1981 میں پورٹ لینڈ آرکیڈز قبضہ جمایا تھا۔ ایک غیر نشان زدہ سیاہ کیبنٹ میں نصب اسکرین پر چلتے جیومیٹرک پیٹرن اور اشکال کے رنگین گیم پلے نے گیمرز کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
لیجنڈ یہ ہے کہ جیسے ہی گیمرز اسے کھیلنا شروع کرتے ہیں تیزی سے اس کی لت میںض مبتلا ہو جاتے ہیں، ٹرانس جیسی حالت میں چلے جاتے ہیں اور انہیں یادداشت میں کمی، دورے، بلیک آؤٹ اور فریبی مناظر نظر آنے لگتے ہیں۔
بظاہر پولی بیئس آرکیڈ گیم کا نام یونانی فلسفی سے جڑا ہے جو 208 قبل مسیح میں میگالوپولس، آرکیڈیا میں پیدا ہوا۔
یہ فلسفی، پولی بیئس اسکوائر بنانے کے لیے مشہور تھا۔ یہ آلہ ایک انکرپشن ٹیبل کے طور پر کام کرتا ہے جو خفیہ پیغامات کے یونانی حروف کو اعداد میں تبدیل کرتا ہے۔
یونانی زبان میں ”پولی بیئس“ کا مطلب ”کئی زندگیاں“ بھی ہے۔
لیجنڈ کے مطابق جب گیمرز پولی بیئس کے سحر میں مبتلا ہوجاتے تو گیم پلے ان کو پیغامات پہنچاتا دکھائی دیتا تھا۔ جس کے بعد کالے سوٹ میں ملبوس سرکاری ایجنٹس مشین سے صرف سکّے ہی نہیں بلکہ ڈیٹا تک حذف کردیتے تھے۔
بالآخر، انہی ایجنٹس نے ایک ماہ بعد گیم کو آرکیڈز سے ہٹا دیا اور اس کے بعد پولی بیئس دوبارہ کبھی کسی جگہ دکھائی نہیں دیا۔
بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ سرکاری ایجنٹس پولی بیئس کو ”ایم کے الٹرا پروگرام“ کی توسیع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یہ پروگرام مبینہ طور پر حکومتی تجربات پر مبنی ہے جس میں سی آئی اے کو ہپنوٹائز یا منشیات کے ذریعے دماغ پر قابو پانے کے طریقے طے کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
1980 کی دہائی کے آرکیڈز میں موجودگی کی افواہوں کے باوجود پولی بیئس کا پہلا عوامی ریکارڈ فروری 2000 میں CoinOp.org پر سامنے آیا، جو آرکیڈ گیمز کا ڈیٹا بیس ہے۔
ڈیٹابیس کا پیج اسٹارٹ اسکرین کی تصویر کے ساتھ ساتھ گیم سے جڑی کہانیوں کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
پولی بیئس کی اسٹارٹ اسکرین پر بڑے حروف میں گیم کے ٹائٹل، 1981 اور ”Sinneslöschen Inc“ کے علاوہ کوئی خاص تفصیل نہیں ہے۔
گوگل ٹرانسلیٹ کے مطابق، جرمن زبان میں ”Sinneslöschen“ کا مطلب ”ذہن کو مٹانا“ ہے۔
مؤخر الذکر متن کاپی رائٹ کی تاریخ اور گیم ڈویلپر کو دکھاتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی حقیقی نہیں ہے۔
اس وقت گیم کے لیے کوئی کاپی رائٹ دائر نہیں کیا گیا تھا، یہاں تک کہ امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف بی آئی) اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ گیم پہلے کبھی موجود ہی نہیں تھا۔
پولی بیئس کی افواہوں کے درمیان اوریگون آرکیڈز میں ایک غدارانہ سازش کا بیانیہ جنم لینے لگا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ افواہیں حقیقی ثبوتوں کے ساتھ متنازع تھیں۔
جہاں تک پولی بیئس کے سیاہ کیبنیٹس کی بات ہے تو یہ سیاہ کیبنیٹس ریلیز ہونے والے نئے گیمز کے لیے ٹیسٹ مشین کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ ان کیبنیٹس پر آرٹ ورک کو اس وقت تک پینٹ نہیں کیا جاتا تھا جب تک کہ گیم وسیع پیمانے پر ریلیز کے لیے تیار نہ ہوں۔
بھلے ہی گیمرز پولی بیئس کھلینے کے دوران اس کے سائیڈ ایفکٹس کا شکار نہ ہوئے ہوں ، لیکن گیمز کھیلنے کے دوران ان کے بیمار ہونے کی بہت سی اطلاعات ہیں۔
یوجین رجسٹر اخبار نے پورٹ لینڈ کے ایک آرکیڈ میں ایک 12 سالہ برائن مورو کی کہانی کا خاکہ پیش کیا، جس نے 28 گھنٹے تک ”Asteroids“ گیم کھیلتے ہوئے پیٹ میں درد محسوس کیا۔
پولی بیئس جیسے ٹرانس میں پہنچانے جیسی حالت کے بجائے مورو کا معدہ اس سوڈا کی لامتناہی فراہمی کو سنبھال نہیں سکا تھا جو اس نے پیا تھا، اور اس طرح اس نے ”ہائی اسکور“ کو شکست دینے کا موقع ضائع کر دیا۔
کیٹ ڈی اسپیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی دن اسی آرکیڈ میں 14 سالہ مائیکل لوپیز کو درد شقیقہ کا سامنا کرنا پڑا اور ”ٹیمپیسٹ“ نامی گیم کے طویل سیشن کے بعد پارکنگ لاٹ میں اس نے کئی الٹیاں کیں۔
افواہ کے مطابق ٹیمپیسٹ میں پولی بیئس جیسے پکسلز والے گرافکس ہیں جنہیں پراسرار گیم سے جوڑا گیا۔
جوا اور منشیات کا کاروبار آرکیڈز میں عام واقعات تھے۔ اسی لئے یہ بھی مشہور تھا کہ سرکاری ایجنٹس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آرکیڈ مشینوں کے اندر کیمرے اور مائک نصب کرتے ہیں اس امید میں کہ مجرم گیمنگ کے درمیان کچھ راز ضرور اگلیں گے۔
اس تمام منظرنامے نے گیمنگ کے بدنام زمانہ شہری افسانوں میں سے ایک یعنی ”پولی بیئس“ کو ایک حقیقت پسندانہ بنیاد فراہم کی۔
پولی بیئس اپنے پیچھے پراسراریت کی ایک میراث چھوڑ کر گیا، بہت سے ٹی وی شوز میں یہ نمودار ہوا اور اس کا حوالہ دیا گیا۔
پولی بیئس مشینیں ”دی سمپسنز“ سیزن 18 کے ایپی سوڈ تھری ”پلیز ہومر، ڈونٹ ہیمر ہِم“ کے پس منظر میں نمودار ہوئیں۔
مارول کی سیریز ”لوکی“ کے پانچویں ایپی سوڈ ”جرنی ان ٹو مسٹری“ میں بھی اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی۔
پولی بیئس نے اسی نام کے دو حقیقی ویڈیو گیمز کو بھی متاثر کیا۔ 2007 میں ڈویلپر ”روگ سائنیپس“ نے پولی بیئس کی افواہوں پر مبنی ایک مفت گیم بنائی۔ 2017 میں ڈویلپر ”لاما سوفٹ“ نے پلے اسٹیشن فور کے لیے پولی بیئس کا اپنا ورژن جاری کیا۔
روگ سائنیپس کا مقصد پولی بیئس کے افسانوی گیم پلے کی نقل کرنا تھا۔ دوسری طرف لاما سوفٹ نے صرف شہری افسانے کو الہام کے طور پر استعمال کیا، اس کا کسی بھی افسانوی گیم پلے کو نقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
تمام نشانیاں اور ثبوت اسی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ گیم کبھی کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔ اسی لئے گیمرز کو مشورہ ہے کہ اس کی تلاش چھوڑیں اور اپنا ”ہائی اسکور“ کسی حقیقی گیم میں بنانے کی کوشش کریں۔