”صرف چلتی کا نام گاڑی نہیں، گاڑی ہر وقت لش پش اور چمک دار بھی ہونی چاہئے“ یہ شوق ہے پشاور کے 27 سالہ ملک عادل زادہ کا۔ یہی وجہ ہے کہ عادل ہفتے میں دو بار گاڑی دھونے کیلئے کار واش سٹیشن کا رخ کرتا ہے۔ گاڑی دھونے پر کتنا پانی ضائع ہوتا ہے،عادل کو علم ہے نہ کوئی فکر۔
عادل زادہ کا کہنا ہے کہ ایک تو کالے رنگ کی گاڑی پر دھول واضح نظر آتی ہے جبکہ اکثر دوستوں کے ساتھ سیر کیلئے جاتا ہوں اور سب کی گاڑیاں بہت صاف ہوتی ہیں اس لئے گاڑی کو دھوکر صاف اور چمکدار رکھنا لازمی سمجھتا ہوں۔ تاہم گاڑی دھونے پر استعمال ہونے والے پانی کی مقدار کے بارے میں کبھی سوچا نہیں۔
یہ مسئلہ صرف عادل زادہ کا نہیں بلکہ گاڑیاں دھونے والے کار واش اسٹیشنز کے مینیجر بھی گاڑی دھونے پر استعمال ہونے والے پانی کی مقدار سے لاعلم ہیں۔
پشاور کے چارسدہ روڈ پر واقع جاپان کار واش سنٹر کے مینیجرعرفان اللہ کا کہنا تھا کہ اوسطاً 20 گاڑیاں روزانہ واش کیلئےلائی جاتی ہیں اور ایک گاڑی دھونے کیلئے تیز رفتار کے ساتھ پانی استعمال کرنے کیلئے 30 منٹ تک مشین مسلسل چلائی جاتی ہے، تاہم پانی کے بالکل درست مقدار کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے کیونکہ انتہائی زیادہ پانی بہہ جاتا ہے۔
پانی ری سائیکلنگ کے حوالے سے عرفان اللہ کا کہنا تھا کہ گاڑیاں دھونے میں استعمال شدہ پانی ندی نالوں میں بہہ جاتا ہے کیونکہ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے کسی کار واش سینٹر میں ری سائیکلنگ مشین یا پلانٹ نہیں کیونکہ کار واش سٹیشنز کیلئے اتنی بڑی جگہ نہیں جس میں ری سائیکلنگ مشین یا پلانٹ بھی نصب کا جا سکے، جبکہ ری سائیکلنگ مشین کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔
انڈیا کی آٹو موبائل انڈسٹری کمپنی کے ویب سائٹ پر دستیاب کار واش کیلئے واٹر ری سائیکلنگ پلانٹ کی قیمت 2 لاکھ انڈین روپے ہیں جو 5 لاکھ 27 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ پلانٹ کے ذریعے روزانہ ایک ہزار لیٹر پانی کو ری سائکل کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ کی واٹر ری یوز ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحقیق کے مطابق ری سائیکل شدہ پانی پینے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آبپاشی، زراعت ، صنعتی کولنگ، کار واش، زمین کی تزئین ،آگ بجھانے اور ٹوئلٹ فلشنگ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)، ضلعی انتظامیہ، کار واش سٹیشنز سمیت مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پشاور میں اس وقت 1500 سے زائد کار واش سٹیشنز موجود ہیں اور ہر کارواش سٹیشن میں روزانہ 20 کے قریب گاڑیاں دھونے کیلئےلائی جاتی ہیں۔
یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یواین ڈی پی) کے مطابق ایک سروے کے نتائج کی بنیاد پر ہر سروس سٹیشن اوسطاً 19 ہزار لیٹرپانی روزانہ استعمال کرتا ہے جبکہ ڈبلیو ایس ایس پی کے رپورٹ کے مطابق ہر کار واش اوسطاً 16 ہزار لیٹرپانی روزانہ استعمال کرتا ہے لیکن ری سائیکلنگ کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہوتا ہے۔
اگر یو این ڈی پی کے حساب سے 1500 کار واش سٹیشنز کو روزانہ 19 ہزار لیٹر کے ساتھ ضرب دیا جائے تو 2 کروڑ 85 لاکھ لیٹر روزانہ، 85 کروڑ 50 لاکھ لیٹر ماہانہ اور سالانہ 10 ارب 40 کروڑ 25 لیٹر بنتا ہے، جبکہ ڈبلیو ایس ایس پی کے حساب سے 1500 کار واش سٹیشنز کو 16 ہزار لیٹر کے ساتھ ضرب دیا جائے تو 2 کروڑ 40 لاکھ لیٹر روزانہ، 72 کروڑ لیٹر ماہانہ اور سالانہ 8 ارب 76 کروڑ لیٹر بنتا ہے۔
یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق پاکستان میں پانی کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے اور موجودہ شرح سے پاکستان 2025 تک خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ 1960 سے پاکستان کی آبادی میں پانچ گنا اضافے کے ساتھ اور موجودہ 30 دن کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے ساتھ، تقریباً 20 کروڑ لوگوں کو پانی کی ”مکمل کمی“ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ 2025 تک فی شخص 500 کیوبک میٹر سے کم پانی دستیاب ہوگا۔
امسال وزارت آبی وسائل کی جانب سے سینیٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے 28 اضلاع میں زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے جن میں سے 5 اضلاع میں سطح خطرناک حد تک کم ہے۔ گزشتہ دہائی میں زیر زمین پانی کی سطح 25 سے 74 فٹ تک گرگئی ہے۔
دستاویزکے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ ضلع خیبر ہے جہاں زیر زمین پانی 74 فٹ تک گر گیا ہے، ضلع ہری پور میں زیر زمین پانی 62 فٹ تک نیچے چلا گیا ہے۔ تیسرے نمبر پر ضلع مہمند ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح 57 فٹ تک گر گئی ہے۔اسی طرح ضلع باجوڑ اور ضلع کرم میں زیر زمین پانی کی سطح 26 فٹ تک گر گئی ہے جو بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ کار واش کیلئے ٹریٹڈ یا ہارویسٹڈ واٹر(بارش کا پانی) استعمال کیا جاتاہے اور اس کو ذخیرہ کرنے کیئے ٹینکر رکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں کسی جگہ پر بھی کار واش کیلئے گراؤنڈ واٹر یا سویٹ واٹر (روزمرہ استعمال کا پانی) کا استعمال نہیں کیا جاتا لیکن پاکستان میں اسی پانی سے گاڑیاں دھونے کا سلسلہ بغیر کسی سوچ و سمجھ جاری ہے جس کے باعث پشاور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ 5 فٹ گرتی جارہی ہے۔
ڈاکٹر منیب نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر پانی کی سطح میں کمی کو جانچنے کیلئے مناسب مقامات پر مناسب آلات کا استعمال کیا جائے تو پانی کی سطح میں سالانہ 10 فٹ کمی کے نتائج سامنے آئینگے۔
ڈاکٹرمنیب الرحمان نے بتایا کہ مشرقی وسطیٰ میں بھی پانی کا انتہائی کم استعمال ہورہا ہے، کیونکہ وہاں سٹیم کلیننگ کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ اس سے 90 فیصد تک پانی کی بچت ہوتی ہے اور گاڑی کو پانی سے زیادہ مؤثر طریقے سے صاف کرتی ہے۔
پشاور واٹر انیشی ایٹو پراجیکٹ پر کام کرنے والے شفیق گگیانی سمجھتے ہیں کہ کار واش سٹیشنز پر پانی ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ کار واش سینٹرز سے بہنے والے پانی سے آبی آلودگی بھی بڑھنے کا خدشہ ہے کیونکہ گاڑیوں میں تیل،گریس،ہائڈ رو فلورک اسیڈ، ڈٹرجنٹ اور دیگر اجزاء شامل ہوتے ہیں اور پھر اسی پانی کو براہ راست نکاسی آب کے نالوں میں ڈالنے سے آبی آلودگی پیدا ہورہی ہے۔
شفیق گگیانی کا کہنا ہے کہ دراصل مفت ملنے کی وجہ سے پانی کی اہمیت اور قدر نہیں ہے اس لئے حکومت کو نہ صرف ہر کار واش سنٹر پر استعمال شدہ پانی کے مقدار کو جانچنے کیلئے میٹر نصب کرنے چاہئیں بلکہ ذاتی بورنگ پر مکمل پابندی لگانی چاہئے کیونکہ ذاتی بور سے پانی استعمال کرنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں جو مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
زرعی یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر انعام اللہ نے بتایا کہ پاکستان میں بے دریغ اور غیر ضروری طور پر پانی کے استعمال کو اگر نہ روکا گیا تو آئندہ چند سالوں میں پینے کیلئے پانی تک دستیاب نہیں ہوگا، اس لئے پانی کو کنٹرول کرنے کیلئے بلنگ نظام کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیم اور شہریوں کے قریب چھوٹے ذخیرے بنانے پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جاپان میں کچن اور واش روم میں استعمال ہونے والے پانی کے دو علیحدہ بلز آتے ہیں تاہم پاکستان میں کوئی ایک بل دینے کو تیار نہیں جس کیلئے ہر صورت سخت قانون سازی اور اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ڈبلیو ایس ایس پی کے ترجمان حسن علی نے بتایا کہ ذاتی بورنگ کے ذریعے پانی حاصل کرنے والے کار واش سینٹرز (صارفین) پر ڈبلیو ایس ایس پی نے ماہانہ بل لازمی قرار دیا تھا تاہم پشاور ہائیکورٹ نے مالکان کے حق میں فیصلہ جاری کرکے ڈبلیو ایس ایس پی کو بل کی مد میں رقم وصول کرنے سے روک دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے اور خیبرپختونخوا واٹر ایکٹ 2020 کے تحت قائم واٹر کمیشن اور اتھارٹی کے قیام کے بعد کار واش سینٹرز ڈبلیو ایس ایس پی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، تاہم ڈبلیو ایس ایس پی نے محکمہ لوکل گورنمنٹ کو تجویز دی ہے کہ پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے تمام کار واش سینٹرز پر میٹر نصب کئے جائیں جو لیٹر میں پانی کے استعمال کا حساب لگا سکیں اور پھر لیٹر کے حساب سے ہی کار واش سینٹرز کے مالکان پر بلنگ کا نظام نافذ کیا جائے۔
پانی بلنگ نظام کو مؤثر بنانے کیلئے میٹر نصب کرنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات (لوکل گورنمنٹ) فیصل آمین خان کا موقف ہے کہ پوری دنیا میں پانی پیسوں کے عوض ملتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مفت ملنے کی وجہ سے پانی کی قدر نہیں اور بے دریغ استعمال جاری ہے جس کو کنٹرول کرنے کیلئے قانون سازی ناگزیر ہے۔
فیصل آمین نے بتایا کہ پشاور ہائیکوررٹ کے احکامات کی روشنی میں محکمہ بلدیات اور قانون نے تمام سٹیک ہولڈز کے ساتھ مشاورت کے بعد تجاویز تیار کرلی ہیں اور چند مہینوں میں کابینہ اور پھر اسمبلی سے منظوری لے کر قانون پر عملدرآمد شروع کیا جائےگا۔
پانی کے تحفظ، کنٹرول اور انتظام کیلئے خیبرپختونخوا حکومت نے سال 2020 میں خیبرپختونخوا واٹر ایکٹ بھی پاس کیا۔
خیبرپختونخوا واٹر ایکٹ 2020 کے سیکشن 21 سی کے تحت پانی سپلائی کرنے والی کمپنی یا ادارے کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی جان بوجھ کر پانی ضیاع کا ذمہ دار پایا جاتا ہے اور دس دنوں کے اندر پانی کے ضیاع کے تدارک کے اقدامات میں ناکام رہے تو ان کیلئے پانی کی فراہمی کو منقطع کیا جاسکتا ہے۔اسی ایکٹ میں سزاؤں سے متعلق سیکشن 25 میں لکھا گیا ہے کہ پانی کے ضیاع،غلط یا بے دریغ استعمال کے مرتکب شخص پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
محکمہ آبپاشی خیبرپختونخوا کے چیف انجنیئرو اور خیبر پختونخوا واٹر ریسورسز اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ناصر محفوظ نے بتایا کہ اتھارٹی میں وہ فرد واحد ہے کیونکہ اتھارٹی کا فی الحال کوئی اسٹرکچر نہیں اس لئے اتھارٹی کیلئے اسٹرکچر کیلئے ڈرافٹ تیار کرکے واٹر کمیشن میں جلد پیش کیا جائے گا اور اتھارٹی کے اسٹرکچر کی منظوری کے بعد تعیناتی و تقرری عمل میں لائی جائے گی۔
تاہم واٹر ایکٹ 2020 کے عین مطابق کام پر وقت لگے گا کیونکہ اس کیلئے پہلے شہریوں میں آگاہی انتہائی ضروری ہے، کیونکہ جب تک واٹر اتھارٹی سے متعلق عوام میں شعور نہ ہو تو اس اتھارٹی کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوگا۔