اقتدار سے محرومی کے بعدعمران خان ایک دن آرام سے نہیں بیٹھے۔ 25 مئی کو جلدبازی میں لانگ مارچ کی کال دے دی۔ جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم دھن کے پکے عمران خان اس کے بعد بھی ایک اور مارچ کی دھمکی دیتے چلے آرہے ہیں اور قبل از وقت انتخابات کے لیے حکومت اور مقتدر حلقوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
عمران خان متعدد بارعوام کو لانگ مارچ میں شرکت کے لیے تیار رہنے کا کہہ چکے ہیں، لیکن ابھی تک انہوں نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، البتہ شہر شہرجا کر پارٹی کارکنوں سے وفاداری کاحلف لے رہے ہیں کہ وہ ”حقیقی آزادی مارچ“کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کا الٹی میٹم جلد بازی میں دیا تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی دھمکی کا جلد ہی کوئی نتیجہ آ جائے گا، جو ان کی توقعات کے برعکس نکلا۔ دوسرا کہا جارہا تھا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد عمران خان لانگ مارچ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ کامیابی کی صورت ان کا اپنا اور ان کے کارکنان کا جذبہ قابلِ دید ہوگا اورناکامی کی صورت وہ مزید مظلوم بننے کا تاثر دے سکیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی پسِ پردہ ملاقاتیں بھی جا ری ہیں اور ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے صدر پاکستان عارف علوی کی موجودگی میں ملاقات ہوئی جس پر ردِعمل دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور سچ بتا نہیں سکتا۔
لیکن اس ملاقات کے بعد بھی خان صاحب کے تیور یہ بتارہے ہیں کہ ملاقات کا مقصد پورا نہیں ہوا اوربیک ڈوررابطے بھی کامیاب نہیں ہورہے یا پھر تحریک انصاف اپنے مکمل پتے شو نہیں کرنا چاہتی۔ ممکن ہے کہ عمران خان ”ہل من مزید“ کا تقاضا کررہے ہوں۔ ان پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ممنوع فنڈنگ کیس ان کے خلاف مضبوط تصور کیا جارہا ہے۔ انہی معاملات سے ریلیف حاصل کرنا بھی خان صاحب کے ایجنڈے میں شامل ہو اور ممکن ہے اس پر انہیں آئینی اداروں کی طرف رجوع کرنے کا ہی کہا گیا ہو۔
تو کیا ایسی صورت میں لانگ مارچ کا رُخ پنڈی کی جانب بھی ہوسکتا ہے؟ کیا ہوگا؟ کب ہو گا اور کیسے ہو گا؟ یہ تو عمران خان کی ٹیم میں سے بھی کوئی نہیں جانتا کیونکہ انہوں نے اس کو خفیہ اور صرف خود تک محدود رکھا ہے۔
عمران خان کا لانگ مارچ محض سیاسی دباؤ ہے یا وہ اپنے لیے ”فیس سیونگ“چاہتے ہیں؟ کیونکہ عمران خان کے پاس ایک راستہ پارلیمان واپسی کا بھی ہے جس کی راہ عدلیہ بھی ان کو دکھا چکی ہے،ابھی تک تو عمران خان یہ راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عمران خان کا ممکنہ لانگ مارچ ان کے مقاصد کے حصول کے لیے کتنا معاون ثابت ہو گا یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن اگر وہ اسلام آباد آتے بھی ہیں تو شاید اس کے نتیجے میں وہ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ حکومت لانگ مارچ کو روکنے کی تیاریاں کر چکی ہے۔ اسلام آباد میں جگہ جگہ کنٹینرز لگائے جا چکے ہیں اوراب اسلام آباد ”کنٹینروں کا شہر“ نظر آتا ہے۔ ایک اہم دلیل حکومت اور تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ بھی آرہی ہے کہ اگر ایک بار کسی جتھے، گروہ یا پارٹی کے دباؤ میں آکر اس طرح حکومت گھر چلی گئی تو آیندہ کے لیے یہی ٹرینڈ بن جائے گا۔ کوئی بھی پارٹی 20، 30 ہزار افراد اسلام آباد لے کر آئے گی اور حکومت کو گھر بھیج کر اپنا مقصد پورا کرے گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے سابق وزیر داخلہ کو بھی اس کا اندازہ ہوگیا تھا یا انہیں بتادیا گیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی صورت ان کو سہولیات نہیں دی جائیں گی۔ ہم سرکاری وسائل استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ حکومت کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ اگرچہ اس بیان کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا اور مستعفی ہونے کی وجہ ذاتی وجوہات کو قرار دیا لیکن بعد میں خود ہی انہوں نے جس طرح کا بیان دیا، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ذاتی وجوہات نہیں، بلکہ انہوں نے خان صاحب کی خواہشات پراستعفیٰ دیا تھا۔
تحریک انصاف کے متعدد رہنما اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ عمران خان مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کی ایک کال پر عوام کا جمِ غفیر امڈ آئے گا اور اگر نئے انتخابات ہو جاتے ہیں تو وہ آسانی سے ملک میں حکومت بناسکتے ہیں۔ اس لیے وہ عمران خان کو اشتعال دلا رہے ہیں کہ جلد ازجلد لانگ مارچ کی کال دیں، لیکن عمران خان ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح پتے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے اس کی بنیادی وجہ 25 مئی کا ان کا ناکام تجربہ بھی ہو۔ لیکن انہیں معلوم ہے کہ اس بار غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ ان کے لیے مستقبل کے اقتدار کی آخری جنگ ہے۔ اگر وہ لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں اور اس میں انہیں کامیابی نہیں ملتی تو یہ ان کی سیاست کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔