ہر سال اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر (چھاتی کے سرطان) کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس مہینے میں سرکاری اور نجی سطح پر چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی پھیلانے کوشش کی جاتی ہے اور اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے بات کرنے میں شرمندگی محسوس کی جاتی ہے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کی آگاہی میں شرمندگی کا عنصر شامل ہونے کے سوال پر لیاقت نیشنل ہسپتال کی بریسٹ سرجن ڈاکٹر روفینہ سومرو کہتی ہیں کہ جب انہوں نے 20 سال قبل چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی کی ویڈیوز شیئر کرنے کی کوشش کی تو اسلام آباد میں سنسر بورڈ نے ان کی نشریات سے منع کردیا کردیا تھا۔ لیکن آج پاکستانیوں کو چھاتی کے کینسر پر ایک عوامی خدمت کا پیغام ملتا ہے، ہماری موبائل فونز کی رنگ ٹونز میں اس حوالے سے آگاہی پیغامات چلتے ہیں۔ تو نے اس معاملے میں ہم نے بہت طویل سفر طے کیا ہے۔
تیسری دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا اور پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے بڑھتے مسئلے کی وجہ کے حوالے سے ڈاکٹر روفینہ کا کہنا تھا کہ بھارت کے مقابلے میں دیکھیں تو پاکستانیوں کی خوراک میں مرغن غذائیں زیادہ شامل ہیں، بھارت کی زیادہ تر آبادی سبزی خور ہے۔ جبکہ چھاتی کے سرطان کا تعلق خواتین میں پائے جانے والے ہارمونز سے ہے۔ ہمارے یہاں چوزوں کو جلدی بڑا کرنے کیلئے ہارمون کے انجیکشنز لگائے جاتے ہیں، بھینس کے دودھ میں اضافے کیلئے ہارمون کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کا براہ راست اثر خواتین پر پڑھتا ہے۔
چھاتی کے سرطان کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا تعلق موروثیت سے بھی ہے۔ یہ بیماری جینیاتی طور پر منتقل ہوسکتی ہے، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خاندان میں شادیوں کا رواج بہت زیادہ ہے، تو اگر خاندان میں شادیاں ہوتی ہیں تو اس کی منتقلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
بریسٹ کینسر کی وقت پر تشخیص نہ ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر عیسیٰ ریڈیولوجی لیب کی ڈائرکیٹر ڈاکٹر فرح عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حالانکہ اب عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے لیکن ملک کے بعض حصوں میں اب بھی کچھ روایات اور ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین ٹیسٹ کروانے سے گھبراتی ہیں، انہیں معلوم نہیں کہ مارکیٹ میں کون سے ٹیسٹ موجود ہیں جن سے بروقت تشخیص اور پھر اس کا علاج ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت کم خواتین چھاتی کے کینسر کے ابتدائی مراحل میں اس کے علاج کیلئے تیار ہوتی ہیں، ڈاکٹروں کے پاس زیادہ تر ایڈوانس کیسز آرہے ہیں۔
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکیل سینٹر کے جنرل سرجن ڈاکٹر گھنشام روتانی کا کہنا ہے کہ جناح اسپتال میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے کیا جانے والا تقریباً ہر علاج مفت ہے۔ لائنوں کی خواری اور سرکاری اسپتال کے دھکوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مریض کی سب سے بڑی سفارش ان کی بیماری ہوتی ہے، اور انہیں تاریخ ان کی بیماری کی نوعیت کے حساب سے دی جاتی ہے۔
عوام میں ایک تاثر یہ پھیلا ہوا ہے کہ اگر آپ بایوپسی کروائیں گے تو کینسر پھیل جائے گا۔ اس حوالے سے جے پی ایم سی میں سرجری کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر اس کا شروع میں ہی علاج ہوجائے تو اس کے پھیلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر روتانی کا کہتے ہیں کہ ہر گلٹی کینسر نہیں ہوتی، لیکن اس کے باجود اگر آپ گلٹی کو پائیں تو کسی ماہر ڈاکٹر سے اس کا معائنہ ضرور کروائیں۔ڈاکٹر روفینہ سومرو کا کہنا تھا کہ گلٹی دراصل پانی کی ایک تھیلی ہوتی ہے، اگر الٹراساؤنڈ کے دوران اس تھیلی میں کچھ تشویش ناک پایا جائے تو اس کو ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔
مردوں میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے ڈاکٹر روتانی کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں ، لیکن مردوں میں اس کی تشخیص جلدی ہوجاتی ہے۔