صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپریل میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم دے کر کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اور انہیں نہیں لگتا ان پر آرٹیکل چھ لگ سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کے اینکر وسیم بادامی کے ساتھ انٹرویو میں صدر عارف علوی نے کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ مجھ پر آرٹیکل 6 لگ سکتا ہے۔ کوئی غلط کام نہیں کیا اور سمجھتا ہوں کہ میرا مواخذہ بھی نہیں ہو گا، جہاں بھی رائے درکار ہوتی ہے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں۔ آئین کے مطابق اپنا کام کر رہا ہوں۔‘
عارف علوی نے کہا کہ ہر کوئی الیکشن کا مطالبہ کر رہا تھا۔ الیکشن کے مطالبے کو محسوس کرتے ہوئے میں سمجھا کہ اسمبلی تحلیل کرنا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اسمبلیوں کی تحلیل کو غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی اور عمران خان وزارت عظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں مگر اپنی رائے ختم نہیں کر سکتے۔
صدر علوی نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا بھی دفاع کیا۔
انہوں نے کہاکہ اس معاملے کو درست فورم پر بھجوا دیا تھا۔ عمران خان کی جانب سے یہ ریفرنس میرے پاس آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے آئین میں مشاورت لازمی نہیں۔ ’اگر مشاورت ہو جائے تو اچھی بات ہے، نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری آئی تو آئین کے مطابق دستخط کر دوں گا۔‘
پاکستان نے صدر نے یہ بھی کہا کہ قومی اسمبلی میں آنے یا نہ آنے کا فیصلہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے کرنا ہے۔
یاد رہے کہ اس ہفتے صدر کے آج نیوز کو دیئے گئے انٹرویو نے پاکستانی سیاست میں کھلبلی مچا دی تھی۔ صدر نے کہاکہ تھا کہ وہ اس بات پر قائل نہیں کہ عمران خان کو ہٹانے کیلئے سازش ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت کے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان فرسٹریٹ ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے اسمبلیوں میں نہ جانے کا فیصلہ کیا۔