سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایمنسٹی اسکیم میں پیسہ ظاہر کرنے سے ٹیکس تو فری ہو گیا ،اگر کمائی کا ذریعہ سامنے نہیں آتا تو جرم اپنی جگہ رہتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ابھی اصل کیس باقی ہے، دیکھنا ہوگا کیا نیب قانون میں تبدیلی بنیادی حقوق سے متصادم ہے یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہے نیب قانون سے درخواست گزار کے حقوق کیسے متاثر ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون سے کسی ملزم کا جرم قبول کرنا اب کوئی جرم ہی نہیں رہا۔
وکیل پی ٹی آئی خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ اب درخواستیں دیے بغیر مقدمات واپس بھیجے جا رہے ہیں، پہلے سے پلی بارگین یا رضا کارانہ رقوم کی ادائیگی بھی واپس ہو جائیں گی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ 2018 میں نیب قانون کی تبدیلی سے پہلے کیا پلی بارگین کی رقم اقساط میں ادا ہو رہی تھی، اب دیکھنا چاہتے ہیں کیا پلی بارگین یا رضا کارانہ رقوم کی واپسی پراقساط ملتی رہیں یا ادائیگی نہیں ہوئی، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل جواب دیا کہ اس کا جواب نیب کے پاس ہوگا۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ نیب قانون کا سیکشن 25 پلی بارگین کی قسط کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے، نئی ترامیم میں ملزم پلی بارگین کی رقم واپسی کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ایک شخص پلی بارگین کی قسطیں کیوں ادا کرے گا ،جب اسے معلوم ہے کہ وہ نئے قانون سے مستفید ہوسکتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک آپ کیس کے بنیادی نکتے پرآئے ہی نہیں ہیں، ابھی آپ نے بتانا ہے کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہوگا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کے سیکشن 9 اے فائیو میں ترمیم کے بعد ملزم سے نہیں پوچھا جا سکے کہ اثاثے کہاں سے بنائے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا اب کسی کو غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثے نیب کو ثابت کرنا ہوں گے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کی 2019 میں پلی بارگین کی رقم اورریکوری میں 6 ارب کا فرق ہے، سال 2020 میں 17.2 ارب کی پلی بارگین معاہدے ہوئے، 8.2 ارب ریکوری ہوسکی اوراب ترمیم کے بعد تمام بقایا رقم نیب ریکور نہیں کرسکے گا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ پلی بارگین بقایاجات نہ دینے والوں کا ترمیم کے بعد ٹرائل ہوگا اورٹرائل میں ملزمان کو سزا بھی ہوسکتی ہے، ترامیم میں نیب کا اختیار 1985سے ہی ختم کردیا گیا ہے، نیب کا اختیار ختم ہوگیا تو ریکور شدہ رقم کیسے برقرار رہے گی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ جرم کی نوعیت کوئی بھی ہو، ٹرائل کورٹس 50 کروڑ سے کم کا ہرکیس واپس بھیج رہی ہیں، اختیار ماضی سے ختم ہونے پر پلی بارگین کا حکم بھی منسوخ ہوجائے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھاکہ رکشے اور فالودے والے اکاؤنٹس کس کے تھے؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ یہ جعلی اکاؤنٹس عبدالغنی مجید اور ان کی کمپنیوں کے بے نامی دارتھے، جعلی اکاؤنٹس میں رقم کا کل حجم 42 ارب روپے بنتا ہے،سابق صدرآصف علی زرداری نے ان اکاونٹس سے انکارکیا ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا اب کسی کو غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثے نیب کو ثابت کرنا ہوں گے؟
چیف جسٹس نے کہاکہ ایمنسٹی اسکیم میں پیسہ ظاہر کرنے سے ٹیکس تو فری ہو گیا،اگر کمائی کا ذریعہ سامنے نہیں آتا تو جرم اپنی جگہ رہتا ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت 11 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔