Aaj Logo

شائع 10 اکتوبر 2022 11:41am

دفعہ 144کیخلاف اسد عمر کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفعہ 144کے خلاف اسد عمر کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا پی ٹی آئی کی 2 صوبوں میں حکومت نہیں ہے جہاں دفعہ 144 کا اطلاق ہوتاہے؟ پہلے ان صوبوں میں جا کریہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں اور یہاں آجائیں۔

چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے دفعہ 144کے خلاف اسد عمر کی درخواست پرسماعت کی، درخواست گزار اسد عمر کے جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔

دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لئےغیر آئینی قانون ہے، بابر اعوان

وکیل بابراعوان نے درخواست میں مؤقف اپنایاکہ دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لئےغیر آئینی قانون ہے، برطانوی راج نے یہ قانون بنایا تھاجوآج بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

اسد عمر کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 144 کا نفاذ مسلسل 2 دن یا 1 ماہ میں 7 دن سے زیادہ نہیں کیا جاسکتا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کیا جو خلاف قانون ہے۔

’ کیا اسد عمر کو پرامن احتجاج کے لئے اجازت لینے سے کسی نے روکا؟ ’

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ درخواست گزار اسد عمر دفعہ 144سے کیسے متاثرہ فریق ہیں ؟ کیا اسد عمر کو پرامن احتجاج کے لئے اجازت لینے سے کسی نے روکا ؟۔

جس پر اسد عمر کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اس صورت میں ریلی نہیں نکالی جاسکتی۔

چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ احتجاج یا ریلی نکالنے کا طریقہ ہے جس کے لیے اجازت لینی ہوتی ہے، دھرنا کیس میں سپریم کورٹ نے طے کردیا، پرامن احتجاج کے لئے اجازت لینا ہوگی۔

’ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا؟ ’

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ اس جماعت کی 2 صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی؟ لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹیو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی، جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا؟

وکیل بابر اعوان نے جواب دیا کہ یہ ایک سیاسی جماعت کی نہیں سابق ایم این اے کی درخواست ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سابق رکنِ اسمبلی کی درخواست نہیں، پٹیشنر اب بھی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں آپ سے اختلاف نہیں کر سکتا مگر تصحیح ضرور کر سکتا ہوں۔

’ پہلے ان صوبوں میں جا کریہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں اور یہاں آجائیں ’

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جب تک استعفیٰ منظور نہیں ہوا، تب تک وہ رکنِ اسمبلی ہیں، پنجاب اور کے پی میں اس جماعت کی حکومتیں ہیں، آپ پہلے ان صوبوں میں جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں، صوبائی اسمبلیوں سے قانون ختم کرا کے یہاں آ جائیں۔

اسد عمر کے وکیل نے کہا کہ پٹیشنر اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے، یہ قانون 1 ماہ میں زیادہ سے زیادہ 7 یا مسلسل 2 دن نافذ رہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی پٹیشنر متاثرہ فریق نہیں، انہیں کسی بات سے نہیں روکا گیا، اگر آپ ریلی نکالنا چاہتے ہیں تو قانون واضح ہے، اس کی اجازت کے لیے درخواست دیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ اگر آئین سے متصادم کوئی قانون بنے تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

’ اگر آپ کو ریلی نکالنی ہے تو ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں ’

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو ریلی نکالنی ہے تو اس کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفعہ 144 قانون کے خلاف درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

Read Comments