ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کی نشریات کو کچھ دیر کیلئے نیوز بلیٹن کے دوران ہیک کرلیا گیا، اور اس دوران ناظرین کی ٹی وی اسکرینز خامنہ ای مخالف نعروں اور حکومت مخالف احتجاج میں ماری گئی خواتین کی تصاویر دکھانے لگیں۔
ایران کے مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے ایک ماسک والی اسکرین پر نظر آئی اور جس کے بعد ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی شعلوں میں لپٹی ٹارگٹ زدہ تصویر دکھائی گئی۔
اس کے نیچے ”عدالت علی“ نامی مبینہ ہیکر نے لکھا، ”ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ اور اٹھو، ہمارے نوجوانوں کا خون تمہارے پنجوں سے ٹپک رہا ہے۔“
یہ ہیک ایران میں کئی ہفتوں سے جاری ان مظاہروں کا نتیجہ ہے، جو پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی خاتون کی موت کے نتیجے میں پھوٹ پڑے تھے۔ مہسا ایک 22 سالہ خاتون تھیں جنہیں مبینہ طور پر غلط طریقے سے حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سولہ ستمبر کو مہسا کی موت نے پورے ایران میں مظاہروں کو جنم دیا۔
رواں ہفتے کے آخر میں ایران کی فرانزک میڈیسن آرگنائزیشن کے اعلان کے بعد تازہ مظاہروں کا آغاز ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ مہسا امینی کی موت سیریبرل ہائپوکسیا کی وجہ سے ایک سے زیادہ آرگن فیل ہونے سے ہوئی ہے اور ان کے سر پر کوئی ضرب نہیں لگائی گئی، جس کی اطلاع پہلے پوسٹ مارٹم میں دی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں 17 ستمبر سے شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک 150 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
کئی شہروں میں دکانیں مظاہرین کی حمایت میں بند ہیں، بشمول تہران کا بازار جہاں کچھ لوگوں نے پولیس کیوسک کو آگ لگا دی اور سیکورٹی فورسز کو بھگا دیا۔