افغانستان کے دالحکومت کابل میں قائم تعلیمی ادارے میں ہزارہ برادری کی لڑکیوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد افغان خواتین کا احتجاج زور پکڑ گیا۔
چند روز قبل دشت برچی کے علاقے میں کاج ایجوکیشن سینٹر میں ہونے والے دھماکے میں معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا، جوداخلہ امتحان دے رہے تھے، خودکش حملہ دھماکے کے وقت امتحانی ہال میں تقریباً 500 بچے بیٹھے تھے، جس میں 43 افراد ہلاک اور 83 زخمی ہوئے۔
عرب میڈیا کے مطابق خودکش حملہ کے بعد ملک بھر میں افغان خواتین سڑکوں پر نکل آئیں، جس دوران کابل سے تعلق رکھنے والی 34 سالہ رضیہ محسنی کا کہنا تھا کہ ایران میں ہونے والے مظاہرے ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہیں کیونکہ دونوں ممالک میں خواتین ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں۔
رضیہ نے کہا کہ تمام خواتین کو اپنی آواز کو بڑھانے کے لئے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہوگا اور ہم سب مل کر جیتیں گے، مزید کہا مجھے خوشی ہے کہ ملک کی تمام خواتین ہمارے ساتھ شامل ہورہی ہیں۔
ننگرہارسے تعلق رکھنے والی 26 سالہ زرمینہ شریفی نے کہا کہ افغان خواتین کے لیے ایران میں ہوانے والے احتجاج ”مزاحمت اور بیداری کی علامت“ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری بہنیں تعلیم حاصل کرتے ہوئے حملے میں ماری گئیں، ہم بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
اس سے قبل 30 ستمبر کو کابل میں دھماکا ایسے وقت ہوا جب طلباء داخلے کے امتحانات کی تیاری کرہے تھے اور دھماکے میں اقلیتی شیعہ ہزارہ کمیونیٹی کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران کی اخلاقی اقدارکے امور کی نگرانی کرنے والی پولیس نے 22 سالہ ایرانی خاتون مہیسا امینی کو سرمکمل نہ ڈھانپنے کے جُرم میں حراست میں لیا تھا۔
مہیسا امینی پولیس کی حراست میں ہی پُراسرار طور پر ہلاکت ہوئی تھی جس کے بعد ملک بھر میں عوام خاتون کی ہلاکت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی تھی۔
ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد سے خواتین کو گھروں سے باہر جانے سے قبل سر کو لازمی طور پرڈھانپ کر نکلنا پڑتا ہے۔