معروف صحافی اور کالم نگار ایاز امیر نے تصدیق کی ہے کہ ان کا بیٹا شاہنواز امیر منشیات کا عادی تھا اور کوئی کام نہیں کرتا تھا۔
اردو اخبار ”دنیا“ کیلئے لکھی گئی اپنی تحریر میں ایاز امیر نے متعدد بار دُہرایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا وہ مقتولہ سارہ انعام کے لائق نہیں، سارہ کو انہوں نے ایک ”بہت خوبصورت، ذہین اور معصوم لڑکی“ قرار دیا۔
ایاز امیر نے یہ بھی لکھا کہ ان کی عادات اور ٹوٹی ہوئی ازدواجی زندگی کا بھی شاہنواز کی پرورش پر اثر ہوا اور شاید وہ (ایاز) اس واقعے کے ذمہ دار ہیں۔
صحافی ایاز امیر نے انکشاف کیا کہ شاہنواز کی پہلی شادی صرف آٹھ دن چلی اور دوسری بھی ناکامی پر ختم ہوئی۔ سارہ انعام ان کی تیسری بیوی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہنواز اپنے والد کے پیسوں پر گزارہ کر رہا تھا اور ان خبروں کی تصدیق کی کہ وہ سارہ انعام سے پیسے وصول کر رہا تھا۔
تجزیہ کار نے یہ بھی کہا کہ اگر معاملہ صرف فائرنگ یا کسی کے زخمی ہونے تک محدود ہوتا تو وہ شواہد کو چھپانے کی کوشش کرتے۔
عدالت میں اپنے بیٹے کی ممکنہ پاگل پن کی درخواست کی حمایت کرنے کی بظاہر کوشش میں، ایاز امیر نے کہا کہ جس دن سارہ انعام کو قتل کیا گیا، شاہنواز نے انہیں فون کیا اور کہا کہ ’ٹرمینیٹر‘ ان پر حملہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔
ملزم شاہنواز امیر نے 23 ستمبر کی شب جھگڑے کے بعد اہلیہ سارہ کو چک شہزاد کے ایک فارم ہاؤس میں سر پر جِم میں استعمال ہونے والے ڈمبل کے وار سے قتل کردیا تھا۔
مرکزی ملزم شاہنواز امیر کے علاوہ پولیس نے 24 ستمبر کی شب صحافی ایاز امیر کوبھی گرفتار کیا تھا، جنہیں شواہد نہ ہونے پرعدالتی احکامات کے باعث رہا کردیا گیا، جبکہ ایاز امیر کی اہلیہ اور شاہنواز کی والدہ ثمینہ شاہ کی عبوری ضمانت میں 3 اکتوبر تک توسیع کردی۔
کینیڈین شہریت رکھنے والی 37 سالہ سارہ دبئی میں ملازمت کرتی تھیں اور قتل سے 3 روز قبل ہی پاکستان پہنچی تھیں۔
شاہنواز اور سارہ کی شادی چند ماہ قبل ہوئی تھی تھی، ان کی دوستی سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی تھی۔