اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے پاکستان میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری میں شفافیت اور اس کی کڑی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈونلڈ بلوم کے اس مطالبے سے چند روز قبل امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ چین سے اپنے قرضے معاف کرائے۔
بظاہر پاکستان کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری رواں ہفتے امریکی جریدے ”فارن پالیسی“ کے صحافی سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان پاکستان ”جیوپولیٹکل فٹ بال“ نہیں بننا چاہتا اور اس کی خواہش ہوگی کہ وہ ان دونوں ملکوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرے۔
لیکن پاکستانی انگریزی اخبار ”دی نیوز“ کو انٹرویو میں ڈونلڈ بلوم نے کہاکہ امریکہ نے پاکستان کو کبھی کسی بلاک کا حصہ بننے یا صرف ایک اقتصادی شراکت دار چننے کے لیے نہیں کیا تاہم یہ اہم ہے کہ ”بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری شفافیت کے بین الاقوامی اصول کے مطابق ہونی چاہیے۔“
بلوم سے پوچھا گیا تھا کہ کیا خطے کے خوشحال ممالک بالخصوص چین کے ساتھ کاروباری تعلقات بہتر بنانا پاکستان کا حق نہیں۔
امریکی سفیر نے اعتراف کیا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ کاروباری تعلقات پاکستان کا اپنا معاملہ ہے اور ضروری نہیں کہ امریکہ کا اس سے کوئی تعلق ہو۔ لیکن پھر فوراً ہی انہوں نے کہاکہ امریکہ اس خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں مسائل کو جنم لیتے دیکھ چکا ہے جہاں پر پائیدار ترقی اور قرضے ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔
بلوم نے کہاکہ امریکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ان تمام ممالک کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے جہاں چین نے سرمایہ کاری کی ہے۔
”اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں کس قسم کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ کیا یہ منصفانہ اور برابری کی بنیادوں پر ہو رہی ہے؟ میرے خیال میں یہاں ہونے والی تمام سرمایہ کاری کی یکساں طور پر جانچ ہونی چاہیے خواہ وہ پاکستان میں ہونے والی امریکی سرمایہ کاری ہو، چین کی یا کسی اور ملک کی۔“
انٹرویو کے دوران امریکی سفیر نے کئی معاملات پر بات کی۔ انہوں نے عمران خان کے غیرملکی سازش کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ واشنگٹن اس معاملےکو پیچھے چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں امریکی سفیر نے کہاکہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ نے پاکستان سے ہوائی اڈوں کے استعمال پر کبھی کسی طرح کی بات نہیں کی۔