دنیا میں پاسپورٹ سسٹم کو شروع ہوئے 102 سال ہو چکے ہیں۔ چاہے صدر ہو یا وزیر اعظ، اسگر کسی کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہو انہیں پاسپورٹ بھی رکھنا پڑتا ہے۔
لیکن روئے زمین پر موجود 200 سے زائد ممالک کے اربوں لوگوں میں تین خاص لوگ ایسے ہیں جو پاسپورٹ کے بغیر کسی بھی ملک جا سکتے ہیں، کوئی ان سے پاسپورٹ طلب نہیں کرتا، بلکہ جب وہ کہیں جاتے ہیں تو ان کی اضافی مہمان نوازی کی جاتی ہے اور پروٹوکول کے مطابق پوری عزت بھی دی جاتی ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں دیکھا گیا کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں چھپ کر آنے والوں پر قابو نہ پایا گیا تو بہت سے مسائل جنم لیں گے اور درحقیقت مسائل پیدا ہونے بھی لگے تھے۔ اس وقت آج کی طرح پاسپورٹ میں وہ تمام حفاظتی فیچر بھی نہیں تھے کہ جعلی پاسپورٹ کو فوراً پہچان لیا جائے۔
ممالک کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں تھا کہ جب کسی بھی ملک کا شہری دوسرے ملک جائے تو اس کے پاس مضبوط دستاویزات ہوں اور اس کا ملک میں آنا بھی قواعد سے منسلک ہونا چاہیے۔ اس دوران پہلی جنگ عظیم بھی چل رہی تھی۔ ہر ملک یہ سمجھنے لگا کہ پاسپورٹ جیسا نظام بنانا بہت ضروری ہے۔
1920 میں اچانک سب کچھ بدل گیا۔ لیگ آف نیشنز میں اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا گیا کہ امریکہ پوری دنیا میں پاسپورٹ جیسا نظام بنانے میں پہل کر رہا ہے تاکہ امریکہ میں چوری سے آنے والے تارکین وطن کو روکا جا سکے۔ 1924 میں امریکہ نے اپنا نیا پاسپورٹ سسٹم جاری کیا۔
پاسپورٹ اب کسی بھی دوسرے ملک جانے والے شخص کے لیے سرکاری شناختی کارڈ بن گیا ہے۔ جس میں اس کا نام، پتہ، عمر، تصویر، شہریت اور دستخط سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ اور اب تو تمام ممالک نے ای پاسپورٹ کا اجراء بھی شروع کر دیا ہے۔
وہ تین خاص لوگ کون ہیں؟
لیکن جہاں ہر انسان کو بیرون ملکل سفر کیلئے پاسپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے، وہیں دنیا میں تین خاص لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دنیا میں کہیں جانے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔ یہ خاص لوگ ہیں برطانوی بادشاہ اور جاپان کے بادشاہ اور ملکہ۔ یہ اعزاز چارلس کے بادشاہ بننے سے پہلے ملکہ الزبتھ کے پاس تھا۔
جب چارلس برطانیہ کا بادشاہ بنے
چارلس جیسے ہی برطانیہ کے بادشاہ بنے تو ان کے سیکرٹری نے اپنے ملک کی وزارت خارجہ کے ذریعے تمام ممالک کو دستاویزی پیغام بھیجا کہ اب برطانیہ کے بادشاہ چارلس ہیں، اس لیے انہیں پورے احترام کے ساتھ کہیں بھی سفر کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ ان کے پروٹوکول کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔
کیا بادشاہ کی اہلیہ کو بھی یہ حق حاصل ہے؟
جہاں برطانیہ کے بادشاہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک ک سفر بنا پاسپورٹ کرسکے، وہیں ان کی اہلیہ اس حق سے محروم ہیں۔
بادشاہ کے ساتھ کسی دوسرے ملک جانے کی صورت میں انہیں سفارتی پاسپورٹ رکھنا ہوگا۔ اسی طرح شاہی خاندان کے اہم افراد کو بھی سفارتی پاسپورٹ رکھنے کا حق حاصل ہے۔
اس طرح کے پاسپورٹ کے حامل کو خصوصی توجہ اور احترام دیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے پر ان کی آمد کا طریقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔
جب الزبتھ ملکہ تھیں
جب برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم تھیں تو انہیں پاسپورٹ کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ان کے شوہر شہزادہ فلپ کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہونا ضروری تھا۔
ویسے یہ بھی جان لیں کہ برطانیہ میں صرف حکمران کو ہی بادشاہ کا خطاب دیا جاتا ہے جب کہ تخت پر بیٹھنے والی ملکہ کے شوہر کو تاحیات شہزادہ کہا جاتا ہے۔
جاپان کے شہنشاہ اور مہارانی
جاپان کے شہنشاہ ناروہیتو کو بھی یہ خصوصی حیثیت حاصل ہے کہ وہ بغیر پاسپورٹ اپنی اہلیہ کے ساتھ کہیں بھی سفر کر سکتے ہیں۔
ناروہیتو اس وقت جاپان کے شہنشاہ ہیں جبکہ ان کی اہلیہ مساکو اوواڈا جاپان کی مہارانی ہیں۔ انہوں نے یہ عہدہ اپنے والد اکی ہیتو کے شہنشاہیت کے عہدے سے دستبردار ہونے کے بعد حاصل کیا۔
جب تک ان کے والد جاپان کے شہنشاہ تھے، انہیں اور ان کی اہلیہ کو پاس پاسپورٹ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اب غیر ملکی سفر کی صورت میں ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔88 سالہ اکی ہیتو سال 2019 تک جاپان کے شہنشاہ رہے جس کے بعد انہوں نے شہنشاہ کے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا۔
جاپان نے یہ انتظام کب کیا؟
جاپان کے سفارتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جاپان کی وزارت خارجہ نے اپنے شہنشاہ اور مہارانی کے لیے یہ خصوصی انتظام 1971 سے شروع کیا تھا کہ جب جاپان کے شہنشاہ اور مہارانی بیرون ملک جائیں گے تو انہیں پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ کس طرح ترتیب دیا جاتا ہے؟
جاپان بھی دنیا کے تمام ممالک کو باضابطہ خط بھیجتا ہے کہ ان کے شہنشاہ اور مہارانی کو صرف سرکاری خط پر بغیر پاسپورٹ کے اپنے ممالک میں آنے کی اجازت دی جائے، ان کی آؐد کی صورت میں ایک خط بھیجا جائے گا۔
ویسے بھی جاپان کی وزارت خارجہ اور برطانیہ میں کنگز سیکرٹریٹ ان کے بیرون ملک جانے کی صورت میں ان کے پروگرام کے بارے میں پہلے سے متعلقہ ملک کو معلومات بھیج دیتے ہیں۔
وزرائے اعظم اور صدور کے لیے
دنیا کے تمام وزرائے اعظم اور صدور جب ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں تو انہیں پاسپورٹ رکھنا پڑتا ہے، بس ان کے پاسپورٹ ”سفارتی“ ہوتے ہیں، لیکن انہیں میزبان ملک کی طرف سے مکمل استحقاق دیا جاتا ہے۔
انہیں امیگریشن حکام کے سامنے جسمانی طور پر پیش ہونے کی ضرورت نہیں اور وہ سیکیورٹی چیک اور دیگر طریقہ کار سے آزاد ہیں۔
پاکستان میں بھی یہ درجہ وزیر اعظم اور صدر کو حاصل ہے۔
پاکستان تین رنگوں کے پاسپورٹ جاری کرتا ہے۔ ہرے رنگ کا پاسپورٹ عام لوگوں کے لیے، حکومت سے منسلک اعلیٰ حکام اور وزراء کے لیے نیلے رنگ کا سرکاری پاسپورٹ جبکہ سفارتی پاسپورٹ میرون رنگ کا ہوتا ہے اور یہ ملک میں وزیر اعظم اور صدر کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔